کچھ این جی او کے گورکھ دھندے!
دیش کی ترقی میں روڑا بن رہی غیر سرکاری انجمنوں(این جی او) پر بجلی گر سکتی ہے۔ وزارت داخلہ ایسی این جی او کو غیر ملکی مدد لینے کے لئے دی گئی اجازت کا جائزہ لے سکتی ہے۔ وزیر اعظم کے دفترکو بھیجی گئی انٹیلی جنس بیورو کی ایک خفیہ رپورٹ میں غیر ملکی پیسہ حاصل کرنے والی رضاکارانہ انجمنوں کو دیش کی اقتصادی سلامتی کے لئے خطرناک قراردیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ جی ڈی پی میں دو سے تین فیصد کی کمی کیلئے وہ ذمہ دار ہیں۔ خفیہ بیورو کی اس رپورٹ کے عام ہونے سے ہلچل مچنا فطری ہے۔ نئی حکومت بننے کے بعد جس طرح یہ رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے یہ صاف ہے کہ اسے پہلے ہی تیار کرلیا گیا تھا۔ تعجب نہیں کہ اسے جان بوجھ کر دبائے رکھا گیا ہو۔ این جی او کو غیر ملکی مدد لینے کے لئے غیر ملکی امداد ریگولیٹری قانون کے تحت وزارت داخلہ سے اجازت لینی ہوتی ہے اس کے لئے این جی او کو بتانا پڑتا ہے کہ غیر ملکی پیسے کا استعمال سماجی کاموں کے لئے کیا جائے گا۔ آئی بی کی رپورٹ سے صاف ہے کہ کچھ این جی اوغیرملکی مدد کا استعمال سماجی کاموں کیلئے نہ کرکے دیش کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کررہی ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ میں جن این جی او پر الزام لگائے گئے ہیں انہیں ملی ایف سی آر اے کیلرینس کاجائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ان این جی او کو اپنی صفائی دینے کا موقعہ بھی دیا جائے گا۔ آئی بی کی رپورٹ وزیر اعظم کے دفتر کو3 جون2014 ء کو سونپی گئی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے دیش میں غیر سرکاری انجمنیں بنانا ایک کاروبار سا بن گیا ہے۔ زیادہ تر تنظیمیں ایسی ہیں جو بنائی کسی اور کام کیلئے جاتی ہیں لیکن وہ کرتی کچھ ہیں۔ شاید ان کی ایسی ہی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے کچھ وقت پہلے یہ کہا تھا کہ 90 فیصد این جی او فرضی ہیں اور ان کا واحد مقصد پیسہ بنانا ہے۔ خفیہ بیورو کی رپورٹ ایک اورگہری بات کررہی ہے ۔ اس کے مطابق کئی غیر سرکاری انجمنیں بیرونی ملک سے پیسہ لے کر ترقی سے جڑی اسکیموں کی مخالفت کرتی ہیں۔ گرین پیس انٹرنیشنل کی ہندوستانی شاخ گرین پیس انڈیا کو کوئلہ اور نیوکلیائی توانائی پر مبنی پروجیکٹوں کی مخالفت کیلئے ہی جانا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ اور انجمنوں ایسی ہیں جو ہر بڑی اسکیم کی مخالفت کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کی مانیں تو نہ تو بڑے باند اور بجلی گھر بنانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بڑی اسکیموں پر کام کرنے کی۔ ماحولیات کے تحفظ کی آڑ میں غیر سرکاری انجمنیں جس طرح ہر بڑے پروجیکٹ کی مخالفت میں کھڑی ہوجاتی ہیں وہ کوئی اچھا اشارہ نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ماحولیات کا تحفظ ضروری ہے لیکن ان کے نام پر صنعتی کرن کو ٹھپ کردینا کا بھی کوئی مطلب نہیں ہے۔ رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے سات ایسے سیکٹر ہیں جنہیں نشانہ مختص کر یہ این جی او اقتصادی ترقی شرح کو منفی سمت میں لے جائیں گی۔ قریب24 صفحات کی اس رپورٹ کے مطابق ذات۔ پات امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بڑے باند کے خلاف مورچہ بندی سے این جی او سارا زور ترقی کو دھیما کرنے میں لگی ہیں۔ ان میں کھدائی صنعت اور فصلوں اور کھاد اور تبدیلی ہوا اور نیوکلیائی اشو کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔ قومی مفاد سے جڑے ان منصوبوں کی مخالفت کرنے والی ان این جی او کو امریکہ، انگلینڈ، جرمنی، نیدرلینڈ کے علاوہ ناروے، سوئیڈن، فن لینڈ اور ڈنمارک جیسے ملکوں یا اس سے جڑے اداروں سے مالی مدد ملتی ہے۔ اس پیسے کا استعمال تاملناڈومیں برنجن کلم نیوکلیائی بجلی گھر، کوئلہ وآکسائیڈ کھدان و ندیوں کو جوڑنے کی اسکیموں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے میں کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ایک این جی او کے غیر ملکی ورکر کے لیپ ٹاپ میں بھارت کا نقشہ ملا ہے جس میں موجودہ اور مجوزہ16 نیوکلیائی بھٹیوں اور 5 یورینیم کانوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے غیر ملکی سیل نے گرین پیس کو غیر ملکی چندے اور اس کے خرچ کرنے کے مقصد سے جڑے سوالات کا جواب دینے کے لئے بھیجے ہیں۔اس معاملے میں سچائی جتنی جلدی سامنے آئے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ ہمارے دیش کو ایک بڑی تعداد میں غیر سرکاری انجمنوں کے ترقی مخالف رویئے کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں