ہار کے بعد کانگریس میں نشانے پر راہل اور ان کی ٹیم!

لوک سبھا چناؤ میں کراری شکست کے بعد کانگریس میں شروع ہوا الزام تراشیوں کا دور تیز ہوگیا۔ پارٹی کے نائب پردھان راہل گاندھی کو لیکر پارٹی کے اندر اور باہر اختلافی زبانی جنگ تیز ہوتی جارہی ہے۔ ہار کے لئے ٹیم راہل کے بہانے خود ان پر درپردہ حملے ہو رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈروں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ قیادت والے عہدے انہیں لوگوں کو دئے جائیں جنہیں زمین پر کام کرنے کا تجربہ ہو۔ ان لیڈروں نے ٹیم راہل پر درپردہ حملہ کرتے ہوئے کہا کانگریس کو اگر پھر سے کھڑا ہونا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کا محاسبہ کرنا چاہئے۔کانگریس لیڈر ملنددیوڑا کا کہنا تھا کہ راہل کے مشیر ہوا کا رخ نہیں بھانپ پائے۔ جن لوگوں کو چناؤ کا تجربہ نہیں تھا وہی اہم کردار نبھا رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے تئیں گہری وفاداری کی وجہ سے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں۔ سونیا سے مل کر آئیں پریہ دت کا بھی کہنا تھا کہ پارٹی عام لوگوں سے کٹ گئی تھی۔ دیوڑا کا مزید کہنا تھا زمینی سچائی کو سمجھنے کے لئے زمین پر کام کرنا اور چناوی لڑائی میں تعلیم لینا ضروری ہے۔ پارٹی میں اگر کسی کو لیڈر شپ کا عہدہ دے دیا جائے تو یہ ہی اس کی بنیاد ہونی چاہئے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر ستیہ ورت چترویدی بھی دیوڑا کی اس رائے سے اتفاق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غلطیوں کو سدھارنے کے لئے ایک پختہ اور ایمانداری سے محاسبہ کی ضرورت ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملند نے جو کہا وہ بھلے ہی پوری طرح سے صحیح نہیں ہو لیکن اس سے کافی حد تک سچائی ضرور سامنے آتی ہے۔ پارٹی میں ایسے لوگوں کی رائے پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے۔ کیونکہ لوگوں کے درمیان یہ ایک خیال پیدا ہوچکا ہے کہ چناوی مہم میں ایسے لوگوں کوذمہ داری سونپی گئی جنہیں چناؤ لڑنے تک کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا۔ چناؤ مہم اور اتحاد کے معاملے میں پارٹی کو نو سکھیوں کی صلاح پر منحصر رہنا پڑا۔ کانگریس کی اتحادی پارٹی این سی پی کے لیڈر نواب ملک نے کہا کانگریس کے بڑے لیڈروں کے انگریزی میں بولنے کی وجہ سے ہی چناؤ ہار گئی کانگریس۔ انہوں نے کہا بھاجپا کے لیڈر یوپی اے سرکار کی پالیسیوں کے خلاف یوپی میں جارحانہ طریقے سے بولتے تھے جس سے ان کی بات زیادہ لوگوں تک پہنچتی تھی لیکن بھاجپا نیتاؤں کے حملے پر منموہن سنگھ، سونیا گاندھی اور پی چدمبرم کا رد عمل انگریزی میں لوگوں کے سامنے آتا تھا۔ جیسی امید تھی کچھ کانگریسی لیڈروں نے پرینکا گاندھی کو آگے لانے کی وکالت بھی کی۔ یوپی اے۔II میں وزیر خوراک رہے کے ۔ وی تھامس نے کہا کہ ایک کانگریسی ہونے کے ناطے ہماری خواہش ہے کہ پرینکا کو اہم دائرہ کار میں آنا چاہئے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ پرینکا میں جنتا سے جڑنے کی فطری صلاحیت ہے۔ انہیں اپنی ماں سونیا گاندھی اور بھائی راہل گاندھی کے ساتھ ایک ٹیم کی شکل میں کام کرنا چاہئے۔ لوک سبھا چناؤ میں کراری ہار کے بعد پارلیمنٹ کے نچلے ایوان کے لیڈر اپوزیشن چننے کے مسئلے پر کانگریسی ہستیوں اور راہل برگیڈ کے درمیان کھینچ تان شروع ہوگئی ہے۔ راہل برگیڈ نے پارٹی کے سینئر لیڈرکملناتھ کو اس عہدے پرمقرر کرنے کے کسی بھی قدم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ لوک سبھا میں پارٹی کا چہرہ کانگریس اپ پردھان راہل گاندھی ہوں گے۔ پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ کملناتھ کو پارٹی کے کچھ ایسے پرانے لیڈروں کی حمایت حاصل ہے جو لوک سبھا چناؤ کے دوران خود کو نظر انداز کرنے کیلئے راہل کو مزہ چکھانا چاہتے ہیں۔ دراصل کانگریس کے اندر کی لڑائی اب باہر آگئی ہے۔ سابق وزیر پیٹرولیم ویرپا موئلی کا کہنا ہے کہ وہ لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر کے طور پر راہل گاندھی کے نام کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے پارٹی کے ناراض لوگوں نے کملناتھ کوہمارے اوپر تھونپنے کی کوشش کرنے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔اگر چناؤ کمپین کے درمیان راہل گاندھی پارٹی کا چہرہ تھے تو انہیں اپوزیشن لیڈر نہیں ہونا چاہئے؟ کیا اس سے یہ پیغام نہیں جائے گا جیسے ہم نے اپنے نیتا کو کنارے کردیا۔ کیونکہ وہ امیدوں پر کھرے نہیں اترے۔ ادھر کانگریس کی نوجوان برگیڈ کے کچھ نیتا کملناتھ کا نام آگے بڑھانے کے لئے پارٹی کے کچھ ایسے باغیوں کی سازش مان رہے ہیں جو راہل کو بدنام کر ان کو نقصان پہنچا نا چاہتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف44 سیٹیں حاصل کر سکی کانگریس خود اپنے دم پر لیڈر اپوزیشن کا عہدہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر لوک سبھا پردھان پورے یوپی اے کو ایک گروپ مان لیں تو ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ یوپی اے کے 56 ایم پی ہیں۔ چناؤ جیتنے کی صورت میں جو کانگریس راہل گاندھی کو پردھان منتری بنانا چاہتے تھے ہارنے پر سونیا گاندھی کو پارلیمانی پارٹی کا نیتا چن لیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟