نواز شریف کو آتنک واد پر نریندر مودی کی کھری کھری!
وزیر اعظم نریندر مودی نے منگلوار کو عہدہ سنبھالتے ہی سارک ممالک کے سربراہ مملکت سے ملاقاتوں کا دور شروع کردیا اور اس کے لئے وہ حیدر آباد ہاؤس گئے۔صبح سوا نو بجے سے ماریش اور سارک ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں شروع ہوئیں ۔ ان میں سب سے پہلے نریندر مودی صاحب نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 12:10 منٹ سے شروع ہوئی ۔ اس ملاقات میں پاک وزیر اعظم کے ساتھ 14 نکاتی ایک نمائندہ وفد بھی آیا تھا اس میں نواز شریف کے صاحبزادے بھی تھے۔ وہ ایک بڑے بزنس مین ہیں۔ یہ پہلے ہی سے طے تھا کہ نئی حکومت کی حلف برداری تقریب میں نواز شریف کی جب ہندوستانی وزیر اعظم سے ملاقات ہوگی وہ محض دو سربراہوں کے درمیان عام بات نہیں ہوگی۔نریندر مودی نے نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات میں دہشت گردی کو لیکر دو ٹوک بات کی اور مقررہ وقت سے زیادہ چلی بات چیت میں انہوں نے پاک وزیر اعظم سے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستانہ رشتے چاہتے ہیں لیکن ان کو آگے بڑھانا ہے تو پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ہندوستان مخالف دہشت گردی اور تشدد کو ختم کرے۔نواز شریف کے ساتھ مودی کی ملاقات کے لئے35 منٹ کا وقت طے تھا لیکن دونوں کی ملاقات50 منٹ تک چلی۔ مودی نے نواز شریف سے یہ بھی کہا کہ 26/11 کے دہشت گردانہ حملوں کی پاکستان میں چل رہی جانچ میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے افغانستان کے شہر حیرات میں واقع ہندوستانی قونصل خانے پر ہوئے حملے کا بھی ذکر کیا اور پاکستان میں رہ رہے ہندوستان کے بھگوڑے ڈان داؤد ابراہیم کا مسئلہ بھی اٹھایا۔ نواز شریف نے بات چیت کے بعد یہ رائے زنی کی ہم دونوں اس بات پر متفق تھے کہ یہ میٹنگ دونوں ملکوں کے لئے ایک تاریخ موقعہ ہے۔ میں نے درخواست کی ہے کہ ہم مل کر خطے میں استحکام اور بدامنی سے چھٹکارہ دلانا چاہئے جو دہائیوں سے ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ میں نے1999ء میں اٹل بہاری واجپئی کی لاہور ملاقات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ لاہور اعلانیہ جاری ہونے کے بعد رشتوں کو ہم وہیں سے آگے بڑھانا چاہیں گے۔ شاید ہی کوئی ہوگا جس نے نریندر مودی اور نواز شریف کی اس پہلی ملاقات سے امیدیں نہیں لگا رکھی ہوں۔ ہم تو اتنے خوش تھے کہ شریف نے اپنی فوج اور کٹر پسندوں کی مخالفت کا خطرہ مول لیتے ہوئے ایک بھاجپا وزیر اعظم کے حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے کی ہمت دکھائی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اپنی حلف برداری میں سارک ممالک کے لیڈروں کو مدعو کرکے مودی نے ڈپلومیسی کی پہلی گیند پر ہی چھکا مار دیا کیونکہ پاکستان سے جس سرد جنگ میں دیش الجھا ہوا ہے، اس میں نواز شریف کو الگ سے بلانے کی گنجائش نہیں تھی۔ چناؤ مہم کے دوران بھی مودی نے ایسے ہی واضح الفاظ میں اپنا موقف رکھا تھا اور اب اس کااحساس نواز شریف کو بھی ہو گیا ہوگا۔ یہ ضروری بھی تھا۔ پاکستان کے سامنے یہ بات بغیر لاگ لپیٹ کے رکھی جائے کیونکہ وہ نہ تو اپنے یہاں سرگرم ہند مخالف عناصر پر لگام لگانے میں سنجیدگی کا ثبوت دے رہا ہے اور نہ ہی ممبئی حملوں کے سازشیوں کو سزا دلا پا رہا ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے افغانستان کے شہر حیرات میں جو حملہ ہوا اس کے پیچھے بھی آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا۔ پاکستان یہ دلیل نہیں دے سکتا کہ افغانستان کی سرگرمیوں سے اس کا لینا دینا نہیں کیونکہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کی کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان میں سرگرم لشکر طیبہ کا ہاتھ ہے لیکن اس کے علاوہ یہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں ممبئی حملے کے قصورواروں کے خلاف جو قانونی کارروائی چل رہی ہے وہ کتنی دھیمی اور مایوس کن ہے۔ دونوں وزرائے اعظم کی بات چیت کے بعد خارجہ سکریٹری سطح کی بات چیت پر رضامندی ہونا کوئی حرج کی بات نہیں لیکن پاکستان کو اعتماد پیدا کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی پہل تو کرنی ہوگی چاہے وہ آتنکی سرغنہ حافظ محمد سعید کے خلاف کارروائی کرے یا داؤد ابراہیم کوبھارت کو سونپے۔ دونوں لیڈروں کے درمیان بات چیت میں کاروباری رشتے بھی بہتر بنانے پر بات چیت ہوئی۔ کارباری رشتے سدھرنے چاہئیں لیکن سبھی جانتے ہیں کہ جہاں یہ بات ہو کہ کوئی آتنکی واردات کرکے ایک مثبت پہل کو نقصان کر جاتا ہے۔ کاروباری رشتے دہشت گردی کی قیمت پر نہیں قائم ہوسکتے۔ نواز شریف کی پریشانی کو ہم سمجھ سکتے ہیں جہاں انہیں پاکستانی فوج کا خیال رکھنا ہوگا وہیں کٹر پسند تنظیموں کے دباؤ کو بھی جھیلنا پڑ رہا ہے۔ مودی کے پیچھے جو بھاری مینڈیٹ ہے وہی ان کی ہمت ہے اور اس کا احساس بھی شریف کرانے میں چوکے نہیں۔ نریندر مودی نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ترجیحات ظاہر کردی ہیں ۔ یہ ایک اچھے اشارے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں