داؤ پر لگا18 گورنروں کا مستقبل؟

بھرپور اکثریت کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکز میں اقتدار پر قابض ہونے سے ایک سوال جو اٹھے گا وہ ہوگا کانگریس یوپی اے سرکار کے ذریعے مقرر کئے گئے18 سے زیادہ گورنروں کے مستقبل کا۔ ان پر اب ہٹنے کی تلوار ضرور لٹک گئی ہے۔ کچھ ماہرین اورتبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ مودی سرکار کے لئے ان کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا۔ اگلے چھ سے آٹھ مہینے میں جن گورنروں کی میعاد پوری ہونے جارہی ہے ان میں کملا بینیوال، ایم کے نارائنن (مغربی بنگال) جے بی پٹنائک (آسام) شیو راج پاٹل (پنجاب) اور ارملا سنگھ (ہماچل پردیش) خاص ہیں۔ ریاست میں لوک آیکت کی تقرری کے اشو پر گجرات میں مودی سرکار کے ساتھ کملا بینی وال کا جھگڑا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دہلی کی سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت کی تقرری اسی سال مارچ میں کیرل کے گورنر کے طور پر ہوئی تھی۔ جموں و کشمیر کے گورنر این این ووہرا کی میعاد اپریل2012ء میں بڑھا دی گئی۔ سابق داخلہ سکریٹری وی کے دگل کو دسمبر 2013ء میں منی پور کا گورنر مقرر کیا گیا۔ نئی این ڈی اے سرکار کے جائزے کے دائرے میں دیگر جو گورنر آسکتے ہیں ان میں بی ایل جوشی(اترپردیش)دوسری میعاد سنبھال رہے ہیں۔ وی وی وانچو( گووا) شنکر نارائنن (مہاراشٹر) دوسری میعاد ،کے روسیا(تاملناڈو) رام نریش یادو(مدھیہ پردیش) ڈی وائی پاٹل (بہار) سرینواس دادا صاحب پاٹل (سکم) عزیز قریشی (اتراکھنڈ) اور وقوم کرونے (میزورم) اور سید احمد(جھارکھنڈ ) کے نام ہیں۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے مئی 2010ء میں دئے گئے فیصلے میں کہا ہے کہ گورنر کو ہٹانے کے لئے سرکار کے پاس ٹھوس جواز ہونے چاہئیں۔ عدالت نے یہ کہتے ہوئے ایک عرضی پر یہ رائے رکھی کہ وہ محض اس بنیاد پر مداخلت نہیں کرے گی کہ اسے ہٹانے کے احکامات کی کچھ اور وجہ بیان کی گئی ہیں۔ایسے میں ہٹائے گئے گورنروں کے لئے عدلیہ کا راستہ بہت مایوس کن نہیں ہے۔ یوپی اے نے 2004ء میں اقتدار میں آنے کے بعد این ڈی اے کے تمام مقرر گورنروں کو ہٹا دیا تھا اور کچھ نے خود ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا پورا امکان ہے مودی سرکار بنتے ہی کچھ گورنر خود ہی استعفیٰ دے دیں اور ہٹانے کی شرمندگی سے بچنا چاہئیں گے۔ جب یوپی اے نے2004ء میں این ڈی اے کے ذریعے مقرر گورنروں کو ہٹایا تھا تبھی انہیں احکامات کو بھاجپا کے ایم پی رہے وی پی سنگھل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر یہ فیصلہ آیا اس وقت کی کانگریس سرکار نے گورنر کو ہٹانے کا بچاؤ کیا تھا اور کہا تھا کہ صدر (مرکزی کیبنٹ) کا فرمان بنے رہنے تک گورنر عہدے پر رہ سکتا ہے۔ جب معاملہ سیاسی ہے تو ظاہر ہے کہ کورٹ میں آنا بہت حوصلہ افزا نہیں رہتا۔ آئین کی دفعہ 156.1 میں گورنر کو ہٹانے کا کوئی قائدہ نہیں ہے۔ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ جن کی تقرری اسی سال ہوئی تھی ان پر بھی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ یہ ایک عام چیز ہے کہ نئی سرکار راج بھون میں جمے کچھ گورنروں سے استعفیٰ دینے کو کہے کیونکہ شاید اس کے خاکے میں وہ فٹ نہیں ہوسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!