نریندر مودی کوہندوستان کی تصویر ہی نہیں تقدیر بھی بدلنی ہوگی!

تبدیلی کی لہر پر سوار ہوکر نریندر مودی ایسے وقت میں ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہیں جب تمام دیش واسی پریشان ہیں ،فکر مند ہیں۔ مارچ میں جاری ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 70 فیصد ہندوستانی ملک کی سمت سے غیر مطمئن ہیں۔ وہ مہنگائی، بے روزگاری اور سرکار کے کام کاج کو لیکر فکر مند ہیں۔ مودی اور بھاجپا کو ووٹ دینے والے کروڑوں عوام چاہتے ہیں دیش کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹے اور امید کی کرن کی شکل میں آئے وزیر اعظم نریندر مودی ان کو ان مسائل سے نجات دلوادیں۔ اس کے لئے معیشت کو چست درست کرنا ضروری ہے۔ امید ہے کہ مودی نے اپنی چناوی تقریروں میں بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن جیسے برننگ اشوز کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کانگریس پارٹی کی ہار کی اہم وجہ رہی بڑھتی مہنگائی، ڈگمگاتی معیشت اور اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے متعلق گھوٹالے۔ لیکن رائے دہندگان کانگریس صدر سونیا گاندھی اور ان کے صاحبزادے راہل گاندھی کی گھسی پٹی لچر سیاست سے اکتا گئے تھے۔ اس چناؤ میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے کروڑوں نوجوانوں کے لئے وراثت یا کسی سیاسی خاندان کے تئیں وفاداری سے زیادہ اہم پرفارمینس تھی۔ لوگوں نے اس چناؤ میں کنبہ پرستی کو پوری طرح مسترد کردیا ہے۔نریندر مودی کو اختلافات کے باوجود سبھی طبقوں سے حمایت حاصل ہوئی ہے۔ بیشک مودی نے اپنی تقریروں میں کہیں بھی ہندوتو کو اشو نہیں بنایا لیکن ان کی ساکھ کے سبب دیش کے اقلیتی طبقے میں مودی کی دہشت ضرور پیدا ہوگئی ہے۔ مسلمانوں غیر مسلموں سمیت دیش کی خودساختہ سیکولر طاقتوں کو بھی یہ ڈر ہے کہ مودی کی سرکار ہندوتو کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائے گی جس سے مذہبی پولارائزیشن بڑھ سکتا ہے۔ ان کی نکتہ چینی کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کی لیڈر شپ ایک کٹرطریقہ کار کو نرم زبان میں ایک فیصلہ کن لیڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 16 ویں لوک سبھا چناؤ میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے 2.31 کروڑ نوجوانوں میں سے 39 فیصد نوجوانوں نے مودی کو ووٹ دیا۔ انہوں نے یہ ووٹ اپنے روشن مستقبل کے لئے دیا۔ انہیں امید ہے کہ مودی معیشت کو بہتر بنائیں گے تاکہ ان کو اچھے روزگار کے مواقع مل سکیں۔ مودی کو سب سے بڑی چنوتی معیشت میں دوبارہ سے روح پھونکنا ہے۔ 2005 سے2007 کے درمیان ہندوستان کی ترقی شرح9 فیصد تھی۔ اب یہ بمشکل5فیصد ہے۔ بھارت میں ہر برس لاکھوں نوکریوں کی ضرورت پڑتی ہے۔مہنگائی کی شرح8.6فیصدی تک پہنچ گئی ہے اور مالی خسارہ آسمان چھو رہا ہے۔ یوپی اےII- حکومت نے ایسی الٹی سیدھی اسکیمیں شروع کرکے خزانے کو خالی کردیا ہے۔ کانگریس کی نا اہلی اور اقتصادی اصلاحات کو ٹھیک طرح سے نافذ نہ کرنے کی سزا اسے بھگتنی پڑی۔ مودی کا آگے کا راستہ مشکل ہے اور کانٹوں بھرا ضرور ہے لیکن معیشت میں نئی جان ڈالنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ مودی کا آغاز تو اچھا ہے سارک ممالک کے سربراہوں کو حلف برداری میں بلا کر اپنی آگے کی خارجہ پالیسی کی سمت کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے تقریب میں شامل ہونے سے ایک نئی امید جاگی ہے لیکن اقتصادی مورچے پر مودی حکومت کا مستقبل کافی حد تک ٹکا ہوا ہے۔ آج بھی ہندوستانیوں کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان سب سے بڑی ترجیح ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟