میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں۔۔۔
میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں کہ آئین سازیہ کے ذریعے قائم ہندوستان کے آئین کے تئیں سچی عقیدت اور وفاداری رکھوں گا۔ کچھ ان سطور کے ساتھ ہی پیر کے روز شام 6 بجے راشٹرپتی بھون کے احاطے میں منعقدہ حلف برداری تقریب میں تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے درمیان دیش کے15 ویں وزیر اعظم کی شکل میں مودی نے حلف لیا۔ جس شان سے نریندر مودی چناؤ جیت کر آئے اسی انداز میں ان کا راج تلک بھی ہوا۔ پاکستان کے وزیر اعظم سمیت 7 پڑوسی ملکوں کے سربراہ یا نمائندوں کے درمیان مودی نے پوری دھوم دھام کے ساتھ حلف تو لیا لیکن اپنی کیبنٹ کے چہروں سے بہت نہیں چونکایا۔ ان کی کیبنٹ چھوٹی ہے لیکن غیر سیاسی نہیں۔ ذات ،فرقہ تجزیئے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آدی واسی ، دلت، پسماندہ، اقلیتیں سبھی کو نمائندگی ملی ہے۔ کانگریس سے بھاجپا میں آئے دو لیڈروں کو بھی مودی نے اپنی ٹیم میں جگہ دے کر تال میل کا اشارہ دیا ہے۔ چناوی ریاستوں کے لئے بساط بچھاتے ہوئے کل 45 وزرا کو حلف دلوایا۔ سرکار 83 وزیر بنا سکتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ کام کے وعدے پر اقتدار میں آئے مودی نے اپنے طریقہ کار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یوپی اے حکومت کے بھاری بھرکم کیبنٹ کے برعکس اس حکومت کا آغاز چار درجن سے بھی کم وزرا سے ہوا ہے۔ حالانکہ کل ملاکر نریندر مودی کی کیبنٹ متوازن ہے لیکن پھر بھی کچھ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کیبنٹ میں کونسا لیڈر کس محکمے کا منتری بنا ہے یہ اتنا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ کیا وہ اس عہدے کے لائق بھی ہے؟ مودی سرکار کے لئے سب سے اہم یہ ہے کہ وہ ان امیدوں پر کھری اترے جس کی وجہ سے عوام نے انہیں اتنی بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ کسی بھی حکمراں کی کامیابی کی پہلی بنیاد یہ ہی ہے کہ اس کے وزیر ایک ٹیم کی شکل میں کام کریں۔ دیش بہت سی مشکلات سے دوچار ہے انہیں دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہی نہیں بلکہ اہم بھی ہے کہ وزیر اعظم کی طرح ان کے ساتھ سبھی ساتھی ہر طرح کی چنوتی کا مقابلہ کرنے میں اہل ہوں۔ راجناتھ سنگھ کا مودی کیبنٹ میں نمبر دو کی پوزیشن ملنا اس بات کا واضح اشارہ دیتا ہے کہ مودی بھی دباؤ میں آگئے ہیں۔ یہ نمبر دو اور تین چار کے چکر سے نہیں بچ سکے۔ اگر ہم وزراء اور ان کے محکموں کی بات کریں تو راجناتھ سنگھ کو وزارت داخلہ دیا گیا ہے۔ ارون جیٹلی کو وزارت خزانہ اور ڈیفنس دیا گیا ہے۔ اقلیتی چہرہ نجمہ ہیبت اللہ ہیں سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا راجناتھ سنگھ جیسے ہوشیار سیاستداں وزارت داخلہ کے لئے صحیح پسند ہیں؟ ارون جیٹلی ایک بہترین وکیل مانے جاتے ہیں لیکن وہ خزانہ کے امور میں کتنے ماہر ہیں ہمیں نہیں معلوم؟ نریندر مودی نے اپنی کیبنٹ میں 7 عورتوں کو بھی شامل کیا ہے۔ ان میں دو نام زیادہ زیر بحث ہیں نجمہ ہیبت اللہ اور ٹی وی اسٹار اور دو بار چناؤ ہار چکی اسمرتی ایرانی کو کس بنا پر کیبنٹ کا درجہ دیا گیا ہے یہ ہماری سمجھ سے تو باہر ہے۔ اسی طرح مودی حکومت میں اقلیتی چہرہ نجمہ ہیبت اللہ کا ہے۔ بیشک وہ ایک صاف ستھری ساکھ والی خاتون ہیں اور مولانا آزاد کی رشتہ دار ہیں لیکن بھاجپا میں مختار عباس نقوی، شاہنواز حسین زیادہ دکھائی دینے والے چہرے ہیں۔ بہتر ہوتا نقوی یا شاہنواز کو بھی کیبنٹ میں شامل کرلیا جاتا۔ اقلیتوں میں مودی کو اپنے تئیں بھروسہ پیدا کرنا ہوگا۔ اس چناؤ میں بدقسمتی سے پولارائزیشن کے سبب جوخلیج پیدا ہوگئی ہے اس کو بھرنا انتہائی ضروری ہے۔ مودی کو سارے دیش کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ اس نقطہ نظر سے دیش کی اقلیتیں زیادہ اہم ہیں۔ اب مودی صرف ان کے نیتا نہیں رہ گئے ہیں جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے۔ مودی کو ہر قدم پر یاد رکھنا ہو گا کہ وہ ان لوگوں کے بھی وزیر اعظم ہیں جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ لیکن یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ عوام نے تبدیلی کے لئے رائے دی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے وعدوں پر کھرا اترنا ہوگا۔ اس کیبنٹ میں مودی نے یہ یقین کرلیا کہ ان کے انتخاب سے چناؤ میں جانے والی ریاستوں اور کھل کر بھاجپا کے لئے ووٹوں کی برسات والی ریاستوں کو مایوسی نہ ہو۔ ہریانہ، مہاراشٹر میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں لہٰذا ہریانہ جیسی چھوٹی ریاست سے بھی دو وزیر بنائے گئے ہیں جبکہ مہاراشٹر سے 6۔ بدقسمتی یہ رہی کہ اس راجستھان سے جہاں وسندھرا راجے نے25 میں سے25 سیٹیں جیت کر ممبران کو پارلیمنٹ بھیجا، وہا ں سے ایک بھی ایم پی کو وزارت میں جگہ نہیں مل پائی۔ وسندھرا کے بیٹے دشینت سنگھ مسلسل تیسری بار لوک سبھا چناؤ جیتے ہیں۔ انہیں کیبنٹ میں جگہ ملتی تو اچھا رہتا۔ اترپردیش میں دیش کی 20 فیصد آبادی رہتی ہے تو مودی کی ٹیم میں 20فیصد حصہ یوپی کو ہی ملا ہے۔ یہاں سے9 وزیر بنائے گئے ہیں۔ بہار سے بھی 5 وزیر بنائے گئے ہیں جس میں دو اتحادی پارٹیوں کے حصے میں گئے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان کو بہت بڑا حصہ نہیں ملا۔
بھاجپا کی رہنمائی میں تیسری بار بنی مودی سرکار میں پہلی پوڑی غائب ہے۔ یعنی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ رہے لال کرشن اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو اس لئے کاٹ دیا گیا کہ وہ 75 سال سے زیادہ کی عمر کے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں نہ صرف ایک کامیاب وزیر رہے بلکہ ان کا تجربہ بھی فائدہ مند رہتا۔ وزارت داخلہ میں اگر الگ سے انٹرنل سکیورٹی وزارت بنائی جاتی تو دہشت گردی سے لڑنے میں یہ حکومت زیادہ مضبوط ثابت ہو سکتی تھی۔ مودی مخالف تیو وں کے لئے مشہور سشما سوراج کو وزارت خارجہ کی اہم ذمہ داری سونپ کر مودی نے جہاں متوازن سیاست کا چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہاں اس سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مودی بھی دباؤ میں آگئے ہیں۔ ارون جیٹلی کو تو ذمہ داریوں سے لال دیا گیا ہے۔ انہیں ایک ساتھ وزارت خزانہ، سکیورٹی اور کارپوریٹ افیئرس کے انتہائی بھاری بھرکم محکمے بھی دے دئے گئے ہیں۔ ان تینوں وزارتوں کی چنوتیاں نہ صرف دیش کی اقتصادی بدحالی بڑی وجہ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے جیٹلی دیش کو اس دلدل سے نکال کر مودی کا وعدہ کیسے پورا کرتے ہیں؟ دیش کی سلامتی نظام خاص کر فوج کی خستہ حالی موجودہ بین لاقوامی پس منظر میں پھیلتی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے انتہائی تشویش کی بات ضرورت ہے۔ 7 ممالک کے سربراہوں کو بلا کر مودی نے نئی خارجہ پالیسی کے اشارہ دئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کا حلف برداری تقریب میں آنا بڑی بات ہے۔ تمام دباؤ کے باوجود وہ یہاں آئے ان کا خیر مقدم ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں پڑوسیوں میں رشتوں میں بہتری ہوگی۔ پڑوسی دیشوں کے تئیں دوستانہ اور نریندر مودی کی پہل بھارت کے بڑکپن کی ایک مثال تو ہے ہی وہ ملک و بیرون ملک میں امیدوں کو فروغ دینے والی بھی ہے۔
- (انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں