وزیر اعظم نریندر مودی سے دہلی کے شہریوں کی توقعات!

اب لگتا ہے کہ دہلی اسمبلی چناؤ جلد ہونے کے امکانات ہیں لیکن دوبارہ چناؤ سے بچنے کے لئے ضروری ہے ایک اکثریتی سرکار بنے۔ اس کے لئے ’آپ‘ پارٹی میں تقسیم ہونا ضروری ہے۔ ایک تہائی ممبر اسمبلی اگر پارٹی چھوڑدیں اور بھاجپا کی حمایت کردیں تبھی جاکر دہلی میں چناؤ ٹل سکتا ہے۔ ممکن ہے دہلی کو مکمل درجہ دلانے کی پہل کر بھاجپا اسمبلی چناؤ جیتنے کی تیاری کررہی ہے اس لئے راجدھانی کے ممبران پارلیمنٹ کو نئی مرکزی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی سے پہلی مانگ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کی ہوسکتی ہے۔ حالانکہ پارٹی مرکز کے سامنے دہلی سے وابستہ دیگر ایشو بھی اٹھائے گی۔ دہلی کے شہریوں کو وزیر اعظم سے پانچ خاص توقعات ہیں۔ دہلی ایک ایسی ریاست ہے جس کے ماتحت نہ تو ڈی ڈی اے(زمین ) ہے اورنہ پولیس (سکیورٹی) اور نہ ہی کارپوریشنیں۔ مکمل ریاست کا درجہ نہ ہونے کی وجہ سے دہلی کی ریاستی سرکار کو تمام فیصلوں کے لئے مرکزی سرکار کی نہ صرف اجازت لینی ہوتی ہے بلکہ مرکز سے ملنے والے پیسے میں بھی دہلی کو زیادہ حصہ نہیں ملتا۔ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے سے سرکار میں ترقیاتی اسکیمیں بنانے اور دیگر فیصلوں میں آسانی ہوگی۔ شیلا سرکار نے دہلی میونسپل کارپوریشن کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے مرکز پر دباؤ ڈال کر ایم سی ڈی کو تین حصوں میں بانٹ دیا لیکن کارپوریشنوں کی تقسیم سے ساؤتھ، نارتھ میونسپل کارپوریشن کی مالی حالت بد سے بدتر بنتی جارہی ہے لیکن مشرقی دہلی کی حالت بھی کافی خراب ہورہی ہے۔ ملازمین کو وقت پر تنخواہ دینے میں کافی دقت آرہی ہے۔ زونوں کے ذریعے پہلے کام چل رہا تھا ویسا ہی اب بھی چل رہا ہے۔ان سب کے یونیفائڈسے کارپوریشن کے شہر کے ہر ضروری حصے کو درکار فنڈ مل سکے گا۔ دہلی میں مہنگی بجلی سب سے اہم اشو ہے۔ دہلی میں کئی بجلی گھر گیس نہ ملنے کی وجہ سے بند پڑے ہوئے ہیں یا جنہیں گیس مل بھی رہی ہے ان کی پیداوار کم ہے اس وجہ سے بجلی گھروں سے بجلی خریدنے اور اس کو تقسیم کرنے والی کمپنیاں بالکل سکڑتی جارہی ہیں اس لئے اس کا بوجھ صارفین پر پڑتا ہے۔ اگر مرکزی سرکار بجلی گھروں کو سستی گیس مہیا کرائے گی تو ظاہر ہے دہلی میں بجلی خودبخود سستی ہوجائے گی۔عوام بجلی ، پانی کے مسئلے سے لڑ رہی ہے۔دہلی و ہریانہ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت دہلی نے منک نہر کو پکا کرنے کے لئے ہریانہ حکومت کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کی اور کام وقت پر پورا ہوگیا لیکن اب پانی چھوڑنے کی باری آئی تو ہریانہ پانی کی کمی کا بہانہ بنانے لگا جبکہ بہتی ندی کے پانی پر ان سبھی ریاستوں کا حق ہے جہاں سے ندی گزرتی ہے۔ ہریانہ نے کوٹے سے زیادہ جمنا کے پانی کو روک رکھا ہے جبکہ اسے طے معاہدے کے مطابق 80 ایم جی ڈی پانی چھوڑنا چاہئے ۔ نئی سرکار کو جلد مداخلت کر دہلی کے حق کا پانی دلانا چاہئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں گریجویشن کورس کو چار سالہ بنانا کامیاب نہیں رہا۔ اس سے طلبا کا ایک سال برباد ہورہا ہے۔ کورس سے پہلے برس میں فاؤنڈیشن میں کورس کے نام پر طلبا کو اسکولی کورس کا رویژن کرایا جارہا ہے۔ ایک سال سے زیادہ نہ صرف وقت برباد ہورہا ہے بلکہ اقتصادی بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔ ویسے تو دہلی کے مسئلے بہت ہیں لیکن کچھ اہم مسائل کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!