بحالی امن میں اکھلیش حکومت فیل،مذہبی پیشواؤں کو کرنی ہوگی پہل!

میں نے اسی کالم میں بار بار لکھا ہے کہ مظفرنگر میں بنیادی سطح پر بیشک سب کچھ ٹھیک ٹھاک لگ رہا ہو لیکن اندر اندر فساد کی آگ سلگ رہی ہے اور اکھلیش سرکار و انتظامیہ چوکس نہیں رہی تو فساد پھر سے بھڑک سکتا ہے۔ میری بات تو چھوڑیئے مرکزی سرکار کی رپورٹ کو اگر وزیر اعلی اکھلیش یادو و پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دیو راج ناگر نے سنجیدگی سے لیا ہوتا تو مظفرنگر میں تازہ جھگڑے پرانہیں ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ اگست۔ ستمبر میں اسی علاقے میں شروع ہوئے دنگے کے بعدمرکزی حکومت نے اترپردیش سرکار کو صاف طور پر آگاہ کیا تھا کہ گاؤں میں پہنچے دنگے کی آگ دور دور تک پھیل سکتی ہے۔ مرکز نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ایک گاؤں کے جھگڑے کا بدلہ لینے کے لئے دوسرے گاؤں میں یہ سلسلہ شروع ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ بدھ کو جب مظفر نگر کے برہانا علاقے میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ بدلے کی آگ بھڑک اٹھی تو محمد، رائے سنگھ گاؤں کے باشندے کسان راجندر پر کھیت میں ہوئے حملے کے بعد دونوں فریقین کی طرف سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ اس میں حسین پور کلاں کے تین لڑکے مارے گئے۔ اس کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔جمعرات کو تینوں لڑکوں کی لاشیں حسین پور کلاں کے مدرسے میں پہنچتے ہی وہاں بھیڑ جمع ہوگئی۔ الزام ہے کھیت میں کام کرنے گئے تینوں لڑکوں کو دوسرے طبقے کے لوگوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ مظفر نگر میں پھر بھڑکے تشدد پر یوپی کے ڈی جی پی نے تسلیم کیا کے اسے پولیس نے لاپروائی سے لیا ہے۔ ڈی جی پی دیو راج ناگر مظفر نگر میں موجود ہیں اور اب تک برہانہ علاقے میں ایک دن پہلے ہوئے تشدد کے معاملے میں 8 لوگوں کو گرفتار کیا جاچکاہے اور15 پر معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اب تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔مظفر نگر فسادات کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کے لئے جاٹھ سبھا نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے جس میں ریاستی سرکار پر امتیاز برتنے کا الزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ فرقے کا ریاستی پولیس پر بھروسہ نہیں رہا۔ چیف جسٹس پی سداشیوم کی سربراہی والی بنچ کے سامنے جاٹھ سبھا کی طرف سے پیش ہوئے وکیل کے ٹی ایس تلسی نے کہا کہ فساد میں جاٹھ لڑکوں کا قتل ہوا ہے۔ ریاستی پولیس کے ذریعے منصفانہ جانچ کی امید نہیں ہے۔ ایسی صورت میں عدالت جاٹھ فرقے کو انصاف دلانے کے لئے سی بی آئی کو معاملے کی تفتیش کے لئے ہدایت جاری کرے۔ بنچ نے کہا 21 نومبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت اس عرضی پر سماعت کرے گی۔ عرضی میں کہا گیا ہے ریاستی حکومت کو پھر سے گاؤں میں ہتھیاروں کی برآمدگی کے لئے چھاپے ماری کا حکم دیا جائے۔ ان دیہات میں مبینہ طور پراے کے 47 سمیت بھاری تعداد میں ہتھیار، گولہ بارود برآمد کیا گیا تھا۔ بھارتی کسان یونین کے قومی پردھان چودھری نریش ٹکیت نے کہا کہ یوپی سرکار سماج میں امن کا ماحول بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اب سرو سماج کے کھاپ چودھری بھائی چارہ بنانے کی پہل کریں گے۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس کو لیکر جمعیت العلما کے مولانا اور کھاپ کے چودھریوں کو میٹنگ6 نومبر کو سسولی میں ہوگی۔ٹکیت خود دارالعلوم کے مہتمم مولانا عبدالقاسم بنارسی اور جمعیت العلمائے ہند کے مولانا ارشد مدنی اور محمود مدنی کو دعوت دیں گے۔ پنچایتوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہورہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مظفر نگر میں پھیلے فساد رکنے کا نام نہیں رہ رہے ہیں ۔اتنا طے ہے کہ یہ کام دونوں فرقوں کے لیڈروں کو کرنا پڑے گا۔ اکھلیش سرکار تو پوری طرح اس معاملے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!