پچھلے چار سالوں میں این آئی اے کی کارگزاری!

ممبئی حملہ(26/11) کے بعد دہشت گردانہ واقعات کی جانچ کے لئے خاص طور سے بنائی گئی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ایجنسی کی زیادہ کرکری ہورہی ہے۔ کارنامے کم۔ پٹنہ دھماکوں کی باقاعدہ جانچ شروع کرنے سے پہلے ہی این آئی اے تنازعات میں گھر گئی ہے۔ راشٹریہ جانچ ایجنسی این آئی اے کی گرفت سے دھماکوں کے ملزم مہر عالم کے مظفرنگر سے فرار ہونے کا الزام ہے۔حالانکہ این آئی اے اسے بے بنیاد بتا رہی ہے کہتی ہے مہر عالم مظفر نگر سے نہیں بھاگا۔ وہ بودھ گیا دھماکوں کا گواہ ہے۔ ویسے مظفرنگر سے فراری کے بعد مہر کو بعد میں کانپور سے گرفتار کرلیا گیا۔ این آئی اے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس درمیان دہلی سے اسے دھماکوں کے ایک اور ملزم محمدافضل کو گرفتار کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ مظفر نگر پولیس کے مطابق این آئی اے ملزم مہر سے مقامی لانج میں پوچھ تاچھ کررہی تھی لیکن وہ اپنا موبائل و دیگر سامان چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ ملزم کے فرار ہونے کی خبرپھیلتے ہی این آئی اے کو اس کی تردید کرنا پڑی۔ دیر شام این آئی اے نے دعوی کیا کہ مہر بودھ گیا دھماکوں کا گواہ ہے اور اسے پٹنہ دھماکوں سے پہلے ہی 23 اکتوبر کو نوٹس بھیج دیا گیا تھا کہ اسے 29 اکتوبر کو بودھ گیا پہنچنا تھا لیکن پٹنہ میں این آئی اے ٹیم کی موجودگی دیکھ کر وہ وہیں ملنے چلا آیا۔ اس کے بعد این آئی اے اسے لیکر مظفر نگر کے میر پور گاؤں میں مشتبہ دہشت گرد حیدر علی کی تلاش میں پہنچی۔ حیدر کے نہ ملنے پر مہر ٹیم کے ساتھ وہیں رک گیا تھا لیکن صبح اچانک کسی بہانے سے لانج چھوڑکر چلا گیا۔26/11 کے بعد بنی اس قومی تفتیش رساں ایجنسی این آئی اے کو پانچ سال ہوگئے ہیں لیکن اس کے پاس دکھانے کے لئے ایک بھی کارنامہ نہیں ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملوں کو انجام دینے والی تنظیم انڈین مجاہدین کے زیادہ تر آتنکیوں کو ان کی گرفتاری دہلی پولیس کے اسپیشل سیل اور ممبئی پولیس کی کرائم برانچ اور بنگلورو پولیس کی ایس ٹی ایف نے کی ہے۔ سکیورٹی ماہرین تو این آئی اے بنانے کے فیصلے پر ہی سوال اٹھانے لگے تھے۔’ پیس اینڈ کنفلٹ اسٹڈیز ‘کے ڈائریکٹر اجے ساہنی کے مطابق 2009ء میں این آئی اے کی تشکیل سرکار کا ایک ٹھینگا تھا۔ ابھی تک این آئی اے نے آتنکی حملے کا کوئی بھی ایسا کیس حل نہیں کیا ۔این آئی اے کے پاس محض60 معاملوں کی جانچ کے لئے 600 سے زیادہ افسر ہیں جبکہ سی بی آئی میں ایک ایک افسر پر درجنوں معاملوں کا بوجھ ہے اور ریاستی پولیس کی حالت تو اور بھی خراب ہے۔ تمام سہولیات کے باوجود ابھی تک این آئی اے آتنکی حملے کا ایک بھی معاملہ پوری طرح سے حل نہیں کرپائی۔ آسام کے کچھ معاملوں کے ساتھ مالیگاؤں ،مکہ مسجد، سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر شریف دھماکوں کے کچھ معاملوں میں این آئی اے نے چارج شیٹ داخل کی ہے۔ زیادہ تر ان کی جانچ پہلے سے ہی ریاستی پولیس کر چکی تھی۔ پنے ،حیدر آباد، دہلی کی جامعہ مسجد اور بودھ گیا دھماکوں کی جانچ سیدھے طور پر این آئی اے کو سونپی گئی ان معاملوں میں ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوپائی۔ اجے ساہنی کے مطابق این آئی اے کی بجائے اگر ریاستوں کی اے ٹی ایس کو سہولیات دی جاتیں تو وہ زیادہ کارگر نتیجے دے سکتی تھی۔ اعدادو شمار بھی ان کے کام کی تصدیق کرتے ہیں۔این آئی اے کی تشکیل کے بعد دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ممبئی اور بنگلورو پولیس نے آئی ایم کے درجنوں دہشت گردوں کو دیش بھر سے گرفتار کیا اور ایک طرح سے اس دہشت گرد تنظیم کی کمر توڑ دی لیکن این آئی اے کے کھاتے میں ابھی تک کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!