سپریم کورٹ دور رس فیصلہ !زبانی حکم نہ مانیں افسران

جمعرات کوسپریم کورٹ نے ایک اور تاریخی و دور رس اثر ڈالنے والا فیصلہ سنایا جس کا خیرمقدم کیا جاناچاہئے افسران کو سیاسی دباؤ سے نجات دلانے کی سمت میں عدالت ہذا نے کہا کہ افسران کو اپنے سیاسی آقاؤں یا اپنے سینئر افسر کے زبانی احکامات پر کارروائی نہیں کرنی چاہئے زبانی حکم پر کارروائی کرنے والا افسر اپنے خطرے پر بھی ایسا کرسکیں گا انتظامیہ کو بہتر بنانے اور پیشہ ورانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لئے افسروں کی کم سے کم میعاد طے کی جانی چاہئے۔ تبادلہ ،تقرری، سرکاری افسروں کے خلاف ڈسپلین شکنی کی کارروائی کے لئے تین ماہ کے اندر مرکز ا ور ریاستی سطح پر سول سروس بورڈ قائم کرنے کا سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے۔ اور صلاح دی گئی ہے کہ دیش میں انتظامی سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لئے سول سروس ایکٹ پاس کیاجائے ۔ جسٹس ایس رادھا کرشن اور پینا کی چندر گھوش کی بنچ دیش کے نامی گرامی 83 ریٹائرڈ افسروں کی عرضی پر یہ احکامات دیئے۔ افسر شاہی میں گراوٹ کی خاص وجہ سیاسی مداخلت کو بتاتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ افسروں کو سیاسی لیڈروں کے ذریعے دیئے گئے سبھی احکامات پر کارروائی کے لئے ان سے ملیں تحریری احکام کے بعد کارروائی کرنی چاہئے۔
ہنگامی حالات میں زبانی احکام پر عمل کیا جاسکتا ہے لیکن زبانی حکم کے بعد تحریری فرمان کیا جانا ضروری ہے۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی لائق تحسین ہے کہ حکومت اور انتظامیہ سے متعلق تمام خامیوں کو دور کرنے میں لگی دیش کی بڑی عدالت نے ایک بار پھر دیش کے سیاسی لیڈر شپ کو ان کے فرائض کی یاد دلائی ہے تعجب نہیں اس فیصلہ کو لے کر سیاستدانوں کا منتھن شروع ہوجائے یا پھر وہ آنا کانی پر اترآئیں کیونکہ سپریم کورٹ نے پہلے بھی اسی طرح کافیصلہ دیا تھا جس پر کچھ ریاستوں کو چھوڑ کر کسی نے بھی سات سالوں میں عمل نہیں کیا مرکزی اور ریاستی سرکاری درجنوں بہانے پیش کریں گی اور عمل نہ کرنا چاہے گی۔ لیکن اس حکم پر عمل کرنا سپریم کورٹ کی مجبوری ہے وہ سجھاؤ دے سکتی ہے سرکار نہیں چلاسکتی ۔افسر شاہوں میں ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے کہ اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کے لئے ساری حدود پار کرجاتے ہیں۔ 
سیاست دانوں کو سمجھناچاہئے کہ وہ اقتدار چلانے میں من مانی نہیں کرسکتے۔ انہیں قانون کے مطابق چلنا ہوگا کئی بار دیکھا گیا ہے افسر فیصلہ خود کی لے لیتے ہیں اور سیاستدانوں کو اس کی بھنگ تک نہیں لگتی جب معاملہ سامنے آتا ہے جب جا کر نیتاؤں کو پتہ لگتا ہے کہ سیاستدانوں کو یاد رکھناچائے کہ وہ بھارت سرکار کے ملازم ہے نہ کے سیاسی اقتدار اعلی کے انہیں خود کوافسروں کا آقا ماننا چھوڑنا پڑے گا۔ سیاست دانوں کا بنیادی کام مسائل کے حل کے طور طریقے تلاشنے ہوتے ہیں اور پالیسی بنانا اور عمل کرنا اس کے لئے ہدایت دینا اسی طرح کی افسروں کاکام پالیسی پر صحیح سے عمل کرانا اور جنتا کے مسائل کے حل کی راہ آسان کرنا اور سسٹم کو کرپشن سے نجات دلانا ہوتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟