فساد متاثرین کے راحتی کیمپوں میں آبروریزی؟ ان پر مدرسوں کا قبضہ؟

مظفر نگر میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کو تقریباً دو مہینے ہونے کو آئے ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنے گاؤں چھوڑ کر راحت کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک چونکانے والی خبر پڑھنے کو ملی جسے پڑھ کر بے چینی ہوئی۔ ہندی روزنامہ’’ ہندوستان‘‘ کی ایک خبر میں جس کا عنوان تھا ’مظفر نگر میں گینگ ریپ‘۔ خبر کچھ یوں ہے۔ چھنگن میں 8 ستمبر کو ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ہجرت کر جوگیا کیڑہ میں واقع راحت کیمپ میں رشتے داروں کے ساتھ رہ رہی ایک لڑکی کے ساتھ آبروریزی کے الزام میں رپورٹ درج کر پولیس نے دو لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ لڑکی کا میڈیکل کرایا گیا۔ حالانکہ لڑکوں کاکہنا ہے کہ اس لڑکی نے انہیں فون کرکے بلایا تھا۔ وہاں پر رشتے داروں نے مارپیٹ کر انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ یہ تو تصور سے بھی باہر ہے کہ پہلے سے گھر بار چھوڑ کر ستائے لوگ جو راحت کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہوں ان کے ساتھ اس طرح کی گھناؤنی حرکت ہو۔ راحت کیمپ میں آبروریزی کے الزام سے افسر بھی سکتے میں ہیں۔ دراصل پولیس نے ضلع کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کی رپورٹ تو درج کرلی اور لڑکوں کو گرفتار بھی کرلیا لیکن حکام کو اس بات کی حیرانی ہے کہ راحت کیمپ کے پاس جاکر پناہ لئے ایک پریوار کی کسی لڑکی کے ساتھ دوسرے فرقے کا کوئی لڑکا کیسے آبروریزی کرسکتا ہے؟وہ کیسے ہمت دکھا سکتا ہے۔ ہر ایک راحت کیمپ کے پاس پولیس کا انتظام بھی ہے۔ انتظامیہ کے ریکارڈ میں جو 15 کیمپ اس وقت ضلع میں چل رہے ہیں ان میں 7732 لوگ ہی رہ رہے ہیں۔ ان میں جولا گاؤں کے جو لوگ رہ رہے ہیں وہ کڑڑ اور ان گاؤں کے ہیں جنہیں انتظامیہ نے باز آبادکاری پیکیج نہیں دیا۔ قابل ذکر ہے مظفر نگر اور شاملی میں ہوئے جھگڑوں میں بے گھر لوگوں کو بازآبادکاری پیکیج کی شکل میں اکھلیش سرکار نے ایسے ہر ایک خاندان کو پانچ پانچ لاکھ روپے کی یکمشت اقتصادی مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح کی مدد 1800 خاندانوں کو دی جائے گی۔ جس سے ریاستی سرکار کے خزانے سے90 کروڑ روپیہ خرچ ہوگا۔ یہ اقتصادی مدد ان دنگوں میں مارے گئے لوگوں کے بے سہارا افراد کو دی گئی ہے۔ یہ رقم 10 لاکھ روپے سے الگ ہوگی۔ خبر تو چونکانے والی یہ بھی ہے کہ مغربی اترپردیش کے فساد متاثر کیمپوں میں مدرسے کے منتظمین کا قبضہ ہوگیا ہے۔ وہ یہاں سے لوگوں کو واپس اپنے گھر نہیں بھجوانا چاہتے۔ جس سے ان کی مدد کی آڑ میں ان کا گورکھ دھندہ چلتا رہے۔ ان مدرسوں کو باہر سے نقد رقم کافی تعداد میں کھانے پینے کا سامان مل رہا ہے۔ یہ انکشاف اترپردیش سرکار کے 10 وزرا کی سدبھاونا کمیٹی کی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ فسادات کے بعد متاثرین کی کفالت کے لئے مظفر نگر میں 41 ،شاملی میں17 راحت کیمپ بنائے گئے تھے۔ ان میں زیادہ تر کو مدرسے چلا رہے ہیں۔ سپا چیف ملائم سنگھ اور وزیر اعلی اکھلیش یادو نے ان کیمپوں میں رہ رہے کنبوں کو محفوظ طریقے سے واپس بھیجنے ، ان کو نوکری و کھانے کا انتظام کرنے کی بھی ہدایت دی تھی اور امن قائم کرنے کے لئے شیو پال سنگھ یادو کی رہنمائی میں 10 وزرا کی سدبھاونا کمیٹی فساد متاثرین علاقوں میں بھیجی گئی تھی لیکن اب یہ کیمپ کافی گل سڑ گئے ہیں۔ لوگ انہیں چھوڑ کر گھر لوٹنے کو تیار نہیں۔ دورہ کے بعد وزرا کی کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے مدرسوں میں چل رہے کیمپوں پر ان کے منتظمین کا قبضہ ہے۔ باہر سے نقد پیسہ بھاری مقدار میں غذائی سامان مدد کے طور پر مل رہ ہے۔مدرسے کے منتظمین ان راحت کیمپوں کو بند نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ان کی منشا کیمپوں کی آڑ میں فائدہ اٹھانے کی ہے۔ اس کے علاوہ کیمپوں میں مل رہی بھرپور سہولیات بھی لوگوں کو واپس گاؤں جانے سے روک رہی ہے۔ گاؤں میں لوٹنے پر کچھ لوگوں کو حفاظت اور کچھ کو گاؤں میں مقدمے ،زبردستی صلح نامہ لکھوالینے کا ڈر بھی ستا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک یہ لوگ ان راحت کیمپوں میں رہتے رہیں گے۔ دو مہینے ہونے کو آرہے ہیں ریاستی سرکار کو ان کو گاؤں واپس جانے کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ سکیورٹی انتظام گاؤں سطح پر ہونا چاہئے تاکہ جب تک پوری طرح سے یہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہ کرلیں تب تک ان کے جان مال کی حفاظت پولیس انتظامیہ کرے۔ راحت کیمپ مسئلے کا حل نہیں۔ آخر کب تک اترپردیش سرکار انہیں چلاتی رہے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!