سچن تندولکر کے رنگ میں رنگا کولکاتہ کا کونا کونا!

کولکاتہ پوری طرح سے ہندوستانی کرکٹ کے بھگوان سچن تندولکر کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔ آخر یہ سچن کا 199واں ٹیسٹ میچ جو ہے۔ شہر کے کونے کونے میں سچن کے کیریئر سے جڑی تصویریں ،کٹ آؤٹ، ٹکٹوں پر اس کی تصویر پر خاص طور سے تیار میوزک اور ڈریسنگ روم کے باہر وغیرہ جگہوں پر بنی ہیں۔ سٹی آف جوائے یعنی کولکاتہ میں کرکٹ کے بھگوان کے اس 199 ویں ٹیسٹ میچ کو یادگاربنانے کی تیاریاں کی گئی ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایڈن گارڈن میں 6 نومبر سے 10 نومبر تک کھیلی جانے والی سیریز کا پہلا میچ سچن کے ٹیسٹ کیریئر کے لئے اہم ہے اور اسے خاص بنانے کے لئے بنگال کرکٹ فیڈریشن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔زمین سے لیکر آسمان تک سچن کے خیر مقدم کی کرکٹ فیڈریشن نے تیاری کی ہے۔ جگموہن ڈالمیا نے سچن کے لئے تیار میوزک البم بھی ریلیز کی ہے۔ اس میں 7 بنگالی، 4 ہندی گانے ہیں۔ سبھی گانے سچن کے اسٹیڈیم میں داخل ہونے پر بجیں گے۔ بھارتیہ ڈریسنگ روم کے دروازے کے ٹھیک اوپر سابق آسٹریلیائی سلامی بلے باز میتھیو ہیڈن کا وہ تبصرہ بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا’’ میں نے بھگوان کو دیکھا ہے اور وہ بھارت کی طرف سے نمبر 4 پر بلے بازی کرتے ہیں۔‘‘ فیب نے سچن کے احترام میں کی گئی ان تیاریوں کی ’سلام سچن‘ کا نام دیا ہے۔ بہت مشکل ہوگا کے سچن تندولکر کی ہندوستانی کرکٹ میں جگہ پر کرنا۔ سچن تندولکر کے بڑے بھائی اجیت تندولکر کا کہنا ہے کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ16 سال کی عمر میں ہی سچن ٹیم انڈیا میں جگہ لے گا اور اتنے ریکارڈ توڑے گا۔ ہم نے تو پہلے اسکول، پھر زون اور پھر انڈر ففٹین اور پھر انڈر19 اور پھر سینئر سطح پر سوچ رہے تھے۔ یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ سچن ان سب کو پھلانگ کر محض16 سال کی عمر میں ٹیم انڈیا میں پہنچ جائے گا۔ جب 1989ء میں پاکستان کے دورہ کے لئے اس کا انتخاب ہوا توپورے خاندان کے لئے فخر کا لمحہ تھا۔ سچن تندولکر کے بعد ہندوستانی ٹیم کو دوبارہ اپنی ساکھ بنانی پڑے گی۔ یہ ذمہ داری میری نظروں میں صرف دو ہی کھلاڑی اٹھا سکتے ہیں ایک مہندر سنگھ دھونی اور دوسرے وراٹ کوہلی۔ ٹیم انڈیا کے لئے یہ اچھا ہے کہ شیکھر دھون ، روہت شرما، وراٹ کوہلی اچھی پرفارمینس دے رہے ہیں اس لئے ممکن ہے سچن کی اتنی کمی نہ کھلے۔ آسٹریلیا ٹیم کے کھلاڑی شین وان ،گیلن مائگرا، گلکرسٹ کے بعد کتنی کمی محسوس ہونے لگی ہے۔ سچن کے بارے میں اتنا کچھ کہا گیا لکھا گیا اس سے ان کا دماغ خراب نہیں ہوا۔ وہ آج بھی زمین پر ہیں اور بھگوان کی طرح پوجے جانے والے سچن کو جس طرح دیش واسیوں کا پیار ملا ہے پتہ نہیں اور کسی کو اتنا ملے گا۔ پچھلے کچھ عرصے سے سچن اپنی لے میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ رنجی ٹرافی کی آخری پاری میں جس طرح کی کارکردگی دکھائی ویسے ہی کولکاتہ میں اور اپنے کیریئر کے آخری ٹیسٹ ممبئی میں دکھائیں گے اور بھارتیہ کرکٹ کو شاندار طریقے سے الوداعی کا تحفہ دیں گے۔ سچن کو سارے دیش کی طرح ہم بھی کہتے ہیں ’سیلوٹ ٹو یو سچن‘۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!