وزیر داخلہ شندے اور شیلا دیکشت کے مابین محض سیاسی نورہ کشتی ہے

مرکزی وزارت داخلہ اور دہلی حکومت کے درمیان جاری سرد جنگ اور کھینچ تان پیر کے روز کھل کر سامنے آگئی ہے۔ حالانکہ میری نظروں میں تو یہ ایک سیاسی نورہ کشتی ہے اس کا مقصد عوام کو بیوقوف بنانا ہے ،وہ کیسے آگے چل کر بتاؤں گا۔ پہلے خبر پر آتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ شیل کمار شندے نے اعلان کیا ہے کہ مرکزی حکومت دہلی پولیس کو دہلی سرکارکے ماتحت کرنے کے لئے تیار ہے ، شرط صرف اتنی ہے اس کے لئے وزیر اعلی شیلا دیکشت تحریری طور پر مانگ کریں۔ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے مطابق وہ تحریری طور پر مانگ ہونے کی صورت میں انہیں ایسا کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ شندے کے اس بیان سے یہ تو صاف ہوتا ہے کہ وہ آئے دن شیلا دیکشت کی جانب سے دہلی پولیس اور اس کے طریقہ کارپر اٹھائے جانے والے سوالیہ نشانات سے خوش نہیں ہے اور آخر کار تنگ آکر انہوں نے شیلا جی کے بلف کو چنوتی دے ڈالی۔ اصل میں دہلی گینگ ریپ یا بابا رام دیو کے حماتیوں پر لاٹھی چارج کا معاملہ رہا ہو یا پھر ان کے بعد راج پتھ پر پرامن مظاہرہ کررہے طلبا پر لاٹھی چارج ہو، دہلی کی وزیراعلی مسلسل گھوم پھر کر مرکزی وزارت داخلہ، لیفٹیننٹ گورنر پر دہلی پولیس کے طریقہ کار کو لے کر حملے کرتی رہی ہیں۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کے میری نظروں میں یہ محض ایک ڈرامہ ہے، سیاسی نورہ کشتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں سب سے پہلے سشیل کمار شندے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دہلی اسمبلی میں ایک بار نہیں دو بار ریزولوشن پاس کرکے ان کی وزارت کو بھیجا ہے۔ دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دیا جائے، دہلی پولیس زمین سے متعلق سبھی محکمے دئے جائیں۔ دہلی پولیس کی تحریری مانگ پہلے ہی سے لٹکی ہوئی ہے ان حالات میں شندے صاحب کونئے تحریری پرستاؤ کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ وہ اگر کرنا چاہیں تو زیر التوا پرستاؤ پر ہی منظوری دے سکتے ہیں۔ دراصل مرکزی سرکار کبھی بھی دہلی پولیس، ڈی ڈی اے، این ڈی ایم سی وغیرہ دہلی حکومت کو نہیں دے گی۔ اسے ہمیشہ یہ ڈر لگتا رہتا ہے کہ کل کو بھاجپا دہلی میں سرکار بنا لیتی ہے تو مرکز کمزور ہوجائے گا اور اس کے ہاتھ ایک بہت بڑا ہتھیار لگ جائے گا۔ اب بات کرتے ہیں شیلا جی کی۔ کیا واقعی وزیر اعلی شیلا دیکشت مارچ کے مہینے میں دہلی پولیس اپنی سرکار کے ماتحت چاہتی ہیں جبکہ چھ سات مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ سوچ لیں کیونکہ پھر قانون و انتظام میں کبھی وزارت داخلہ پر منتقل کرنے کا بہانا نہیں بچے گا۔ دراصل دہلی گینگ ریپ کے ملزم رام سنگھ کے قتل کی ذمہ داری سیدھے تہاڑ جیل حکام پر آتی ہے اور کیونکہ تہاڑ جیل دہلی حکومت کے ماتحت ہے اس لئے شیلا جی کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ جنتا کو کیا جواب دیں۔ عام آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ دہلی پولیس کس کے ماتحت آتی ہے،وزارت داخلہ کے یا دہلی سرکار کے وہ تو اپنے آپ کو ہر لحاظ سے دہلی میں محفوظ چاہتی ہے۔اصل کمی تو پولیس کے طریقہ کار میں ہے جس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ سابق ڈائریکٹر جنرل پرکاش سنگھ نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں انہوں نے عدالت سے کہا تھا کہ پولیس اصلاحات کو سختی سے لاگو کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اس کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی لیکن آج تک پولیس محکمے میں سدھار نہیں ہوسکا۔ وجہ کوئی بھی ہو لیکن کوئی کرنا نہیں چاہتا۔ اس بات کی کمی ہے کہ دہلی پولیس میں ردوبدل ہونی چاہئے۔ اہم شخصیات کی سکیورٹی کے لئے الگ فورس ہو۔ دہلی پولیس کے ہزاروں جوانوں کو اس ڈیوٹی سے ہٹا کر جنتا کی سوا میں لگایا جائے۔ پولیس ملازمین کے کام میں بھی بہتری ہو، سہولیات بڑھائی جائیں اور کمیٹی کے ذریعے تجویز سفارشوں پر غور کیا جائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے ایک مرحلہ وار طریقے سے دہلی پولیس دہلی سرکار کو دی جائے۔ ابتدا ٹریفک پولیس سے ہوسکتی ہے۔ اس کے دہلی سرکار کے ماتحت رہنے سے کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ بہتر ہو کے سشیل کمار شندے اور شیلا دیکشت کے درمیان اس سیاسی کشتی کو چھوڑ کر دہلی کی جنتا کی بھلائی کے لئے اور ان کی سلامتی کے لئے ٹھوس قدم اور پلان تیار ہیں۔نورہ کشتی کو جنتا اچھی طرح سمجھتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!