وسنت وہار گینگ ریپ کے واقعہ کے بعد کچھ بھی نہیں بدلہ

16 دسمبر کو ونست وہار گینگ ریپ کے واقعہ کے بعد ہمیں امیدتھی کہ اب تو عورتوں کی سلامتی میں تھوڑا فرق آئے گا۔ لیکن انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ عورتوں میں عدم و سلامتی کے احساس میں کوئی کمی نہیں دکھائی دی۔ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت جب خود یہ قبول کرلیں کے میری بیٹی بھی اس شہر میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہے،تو دیگر عورتوں میں عدم سلامتی کا احساس اس سے بہتراور کون بتا سکتا ہے۔ عورتوں کے خلاف جرائم کے اعدادو شمار چونکانے والے ہیں۔ دہلی میں عورتوں پر ظلم تیزی سے بڑھے ہیں1 جنوری سے لیکر15فروری تک بدفعلی کے 181 واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس طرح راجدھانی میں اوسطاً روزانہ 4 عورتیںآبروریزی کا شکار ہورہی ہیں۔ جبکہ 2012 ء میں یہ فیصد 2 تھا۔ 2012ء میں پورے سال میں آبروریزی کے کل واقعات706 تھے اس میں اضافہ کے پیچھے حالانکہ کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے ۔چوطرفہ سختی کے باوجود اب سارے آبروریزی کے واقعات درج ہورہے ہیں۔ پہلے آدھے واقعات درج نہیں ہوا کرتے تھے یا پھر پولیس ان کی طرف توجہ نہیں دیتی تھی۔ پولیس کے انتظام آج بھی پختہ نہیں ہیں۔ پہلے سے زیادہ ڈر عورتوں میں بڑھا ہے اور اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے انتظام سے بھی عورتوں میں کوئی تشفی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے انتظامیہ پولیس کی خامیاں خاص وجوہات ہیں۔ پولیس بیشک کئی خامیوں کے لئے ذمہ دار ہوسکتی ہے لیکن انتظامیہ کی خامیوں کی وجہ سے بھی پولیس تنقید کا شکار ہوتی ہے۔ راجدھانی دہلی کی قریب ڈیڑھ ہزار عورتوں کی سلامتی پر ایک خاتون پولیس کانسٹیبل تعینات ہے۔ ایسے میں اس بات کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورتیں کس حد تک محفوظ ہیں۔ تھانوں میں بھی مہلا پولیس کی بھاری کمی ہے۔ دہلی پولیس میں قریب ساڑھے چھ فیصدی مہلا پولیس کانسٹیبل ہیں۔2011ء کی مرد شماری کے مطابق دہلی کی آبادی قریب 1 کروڑ67 لاکھ 53 ہزار ہے ان میں سے 7776825 عورتیں ہیں۔ دوسری طرف دہلی پولیس کی تعداد قریب 78 ہزار ہے اور اس میں مہلا پولیس ملازمین کی تعداد5121 ہے۔ ایسے میں تھانے میں پہنچنے والی متاثرہ عورت مرد پولیس والے کے سامنے اپنے آپ کو لاچار محسوس کرتی ہے اور اپنا درد اس کے سامنے بیان نہیں کرپاتی۔ 16 دسمبر کے واقعے کے بعد مہلا ذیادتی خاص طور پر آبروریزی کے خلاف ایک سخت قانون کی نہ صرف ضرورت محسوس کی گئی بلکہ اسے لیکر دیش بھر میں بحث بھی ہوئی۔ عورتوں پر ذیادتی روکنے سے متعلق مرکزی کیبنٹ میں اتفاق رائے نہ ہونے سے یہ قانون لگتا ہے کہ جلد وجود میں نہیں آپائے گا۔ اعدادو شمار ثابت کرتے ہیں کہ دیش بھر سے اٹھی آوازروں کے باوجود عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کم نہیں ہوئے۔ عورتوں پر ذیادتی کو روکنے کے لئے واقعی ایک سخت قانون کی ضرورت ہے۔ مگر یہ کافی نہیں ہے ایسوچیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دیش کی88 فیصدی عورتوں کو جنسی استحصال، چھیڑ چھاڑ ، آبروریزی سے متعلق قانون کی ٹھیک سے جانکاری نہیں ہے۔ قومی کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ تھانوں میں درج ہونے والے آبروریزی کے صرف26 فیصدی معاملوں میں ہی قصورواروں کو سزا مل پاتی ہے۔ سچائی یہ بھی ہے کہ اقتصادی خودکفالت یا آبروریزی سے بچنے کی گارنٹی نہیں ہے اور نہ ہی مہلا بینک جیسے علامتی قدم اٹھانے سے حالات بدلنے والے ہیں۔ عورت سے ذیادتی پر بات کرتے ہوئے سماج میں ان کی بدلتی پوزیشن پر بھی غور کرنا ضروری ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ مردوں کی بالادستی ان کی روشن خیال کو قبول نہیں کرپارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے ہمارے سماج کو اپنی ذہنیت بدلنی ہوگی۔ٹاٹا اسٹریجک مینجمنٹ گروپ کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ دیش کی کئی ریاستوں میں مہلا سکیورٹی کی حالت بہت خراب ہے۔ ان میں ہریانہ، پنجاب، مدھیہ پردیش، راجستھان، دہلی قابل ذکر ہیں۔ میٹرو شہروں کی بات کی جائے تو حیدر آباد و دہلی سب سے نچلے پائیدان پر ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دہلی این سی آرمیں آبروریزی کے واقعات اور گیس سے ہونے والی اموات سب سے آگے ہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود نہ تو گاڑیوں سے کالے شیشے پوری طرح سے ہٹائے گئے اور نہ رات کو بسوں میں سنتری کی تعیناتی میں کوئی بہتری آئی ہے۔ جب دہلی کا یہ حال ہے تو باقی دیش کا کیا حال ہوگا تصور کرنا مشکل ہی نہیں بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ16 دسمبر کے واقعے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!