تلنگانہ اشو پر بری پھنسی کانگریس ادھر کنواں تو ادھر کھائی

تلنگانہ اشو ایک بار پھر تیزی پکڑتا جارہا ہے۔ سرکار کی جانب سے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے 20 دسمبر کو ہوئی آل پارٹی میٹنگ میں ایک مہینے میں اس معاملے پر فیصلہ لینے کی بات کہی تھی۔ وزیر داخلہ کا وہی بیان اب مرکزی سرکار کے لئے مصیبت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بھی کچھ اسی طرح کا بیان دیا تھا۔ دراصل وزرا کے ان بیانوں کی بنیاد پر آندھرا پردیش کی ایک مقامی عدالت نے پولیس کو ان الزامات کی جانچ کرنے کی ہدایت دی ہے کے کیا ان مرکزی وزرا نے الگ ریاست کی تشکیل کے مسئلے پر اپنے بیان کے ذریعے تلنگانہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ عدالت نے سماعت کے بعد وزیر داخلہ شندے اور وزیر خزانہ پی چدمبرم پر دفعہ420 کے تحت مقدمہ درج کرنے کے احکامات دئے ہیں۔ عرضی پر سماعت کے بعد رنگاریڈی میٹرو پولیٹن کورٹ نے دونوں لیڈروں پر الگ تلنگانہ ریاست کی تشکیل پر اپنا وعدہ پورا نہ کرنے کا الزام پہلی نظر میں صحیح پایا ہے اور شندے پی چدمبرم کے خلاف ایل بی نگر پولیس کو دفعہ420 کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ تلنگانہ کو الگ ریاست بنانے کی مانگ کو لیکر پھر سے تحریک شروع ہوگئی ہے وہیں ریاست کے باقی حصے میں آندھرا کو تقسیم نہ کرنے کے حق میں ماحول بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ تلنگانہ کو علیحدہ ریاست بنانے کی تجویز ترئی آندھرا اور رائل سیماکے سیاستدانوں کے گلے آسانی سے نہیں اترے گی۔ یہ بات شروع سے ہی صاف تھی لیکن مسلسل بے یقینی کی حالت بنی رہنے کے لئے کانگریس کا دوہرا یا ٹال مٹول والا رویہ ذمہ دار ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں جب مرکز نے اس طرح کا ٹال مٹول والا رویہ دکھایا ہے۔ دسمبر2009 ء میں تب کے مرکزی وزیر داخلہ رہے پی چدمبرم نے بھی کچھ ٹھوس فیصلہ لینے کا یقین دلایا تھا لیکن تب سے اب تک تین سال گذر گئے ہیں۔ مرکزی سرکار پریشانی میں بھول رہی ہے کہ تلنگانہ میں الگ ریاست کی چاہت کتنی مضبوط اور بڑی ہے۔ یہ ایک بار نہیں کئی بار ظاہر ہوچکا ہے لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔2004ء میں کانگریس اور تلنگانہ راشٹرسمیتی نے مل کر چناؤ لڑا تھا اس گٹھ جوڑ کی بنیادپر ٹی آر ایس کو کانگریس جانب سے دی گئی یقین دہانی کہ اگر وہ اقتدار میںآئی تو تلنگانہ کو الگ ریاست بنانے پر کام کرے گی۔ کانگریس آندھرا میں اقتدار میں آگئی اور مرکز میں بھی اس نے ٹی آر ایس سے کئے وعدے ٹھنڈے بستے میں ڈال دئے۔ شاید اس لئے آندھرا میں کانگریس کو اپنے دم پر اکثریت مل گئی تھی اور وہاں سرکار چلانے کے لئے اسے ٹی آر ایس پر منحصر نہیں رہنا پڑا تھا۔ آخر کار ہار کے بعد چندرشیکھر راؤ یوپی اے سے الگ ہوگئے۔ آج حالت یہ ہے کہ الگ ریاست کی مانگ پوری نہ ہونے پر تلنگانہ کے کانگریسی ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ چھوڑکر ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں وہیں کانگریس کو بھی یہ خوف ستا رہا ہے کہ تلنگانہ کی مانگ مان لینے پر ساحلی آندھرااور رائل سیما وادی کے ایم پی ،ممبر اسمبلی جگنموہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس کی طرف کہیں رخ نہ کرلے۔ پھر بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اگر مرکزی سرکار تلنگانہ کی مانگ مان لیتی ہے تو دیش کے باقی حصوں میں علیحدہ ریاستوں کی مانگ طول پکڑ سکتی ہے۔ اگلے عام چناؤ میں اب تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ اس صورت میں کوئی بھی قدم اٹھایا گیا تو اس کے دوررس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ کانگریس بری پھنسی ہے۔ ادھر کنواں ہے تو ادھر کھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟