سارے گلے شکوے دور ہوگئے پھر بھارت۔ پاک بھائی بھائی؟

بات کڑوی ہے لیکن تلخ سچائی ہے۔ یوپی اے کی سرکار میں نہ تو قوت ارادی نظر آتی ہے اور نہ ہی یہ کسی اشو پر مضبوطی سے کھڑی ہوسکتی ہے۔ آج اس حکومت کا نہ تو دیش کے اندر کسی کو کوئی ڈر ہے اور نہ ہی دیش کے باہر۔ پڑوسی پاکستان اس سچائی کو سمجھ گیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بھارت ایک نرم گو ملک بن چکا ہے اور ہم جو چاہیں جب چاہیں کرلیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوئی جواب طلبی کرنے والا نہیں۔ آج تک لانس نائک ہیمراج کا کٹا سر ہمیں نہیں ملا۔ نہ چمیل سنگھ کی جیل میں پیٹ پیٹ کر ہتیا کا تسلی بخش جواب ملے گابھی کبھی نہیں۔پاکستان ہر بات سے انکارکردیتا ہے اور ہم دو تین دن شور مچاتے ہیں اور پھر خاموش ہوکر بھائی چارے کی باتیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تازہ خبر ہے بھارت پاکستان میں سب اختلافات دور ہوگئے ہیں اور پھر سے امن کی آشا واپس پٹری پر آگئی ہے۔ جموں و کشمیر کو بھارت پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن کے آر پار سامان کی آمدورفت کو پھر سے بحال کردیا گیا ہے۔ وہیں تجارت بھی شروع ہوگئی ہے۔ سب سے پہلے80 مسافروں کو لیکر بھارت کے پونچھ علاقے سے جہاں لانس نائک ہیمراج کا سر کاٹا گیا تھا ٹھیک وہیں سے تین بسیں پاکستان کے راولکوٹ کے لئے روانہ ہوئیں۔ کشیدگی بڑھنے سے قریب100 لوگ بس بند ہونے سے پھنس گئے تھے۔ 8 جنوری سے یہ راستہ بند تھا۔ پاکستان کے قول اور فعل کی ایک اور تازہ مثال سامنے آئی ہے۔ 1999 ء میں پاکستان کے اس وقت کے فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کارگل میں مجاہدین کے بھیس میں پاکستانی فوجیوں کی بیوقوفی اور شرارت انگیز حرکت اور اسے چھپانے کا پردہ فاش اس وقت کے آئی ایس آئی کے تجزیہ ونگ کے چیف شاہد عزیز نے کچھ نئے حقائق کے ساتھ ایک آرٹیکل میں کیا ہے۔ پاکستانی اخبار ’دی نیشن‘ ’میں پٹنگ آوور چلڈرن ان لائن آف فائر‘ کے عنوان سے 6 جنوری کو شائع مضمون نے پاکستان میں ہلچل پیدا کردی ہے۔پاک فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل عزیز کا کہنا ہے کارگل جنگ میں پاکستان کی طرف سے مجاہدین نہیں بلکہ پاک فوجی جوان لڑے تھے۔ اب تک پاکستان کہتا رہا ہے کہ کارگل میں حملہ کرنے والے آتنک وادی تھے۔ آرٹیکل میں شاہد عزیز نے کہا کارگل میں حملہ جھوٹے قیاسوں پر مبنی ایک بیکار منصوبہ تھا۔ بعد میں جنرل مشرف نے اس پورے معاملے کو دبادیا اور پاکستانی جوانوں کو چارے کی طرح استعمال کیا گیا۔ عزیز نے لکھا کارگل کی لڑائی میں کوئی مجاہدین نہیں تھا ۔ صرف وائرلیس پر مجاہدین کے نام لیکر جھوٹے پیغام بھیجے جارہے تھے۔ اس سے کسی کو کوئی بیوقوف نہیں بنایا جاسکا۔ ہمارے فوجیوں کو ہتھیار اور گولہ بارود کے ساتھ خندقوں میں بٹھایا گیا۔ پاکستانی جوانوں کو کہا گیا تھا کہ بھارت حملے کا جواب نہیں دے گا لیکن بھارت نے جب جوابی حملہ کیا تو نہ صرف پاک جوان الگ تھلگ پڑ گئے بلکہ ان کی چوکیوں سے بھی رابطہ ٹوٹ گیا۔ اس وقت این ڈی اے کی حکومت تھی جس نے فوج کو کھلی چھوٹ دے دی تھی کے آپ جوابی کارروائی کریں۔ اس سرکار میں اتنا دم نہیں ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟