26/11 معاملے میں ڈیوڈ ہیڈلی کو کم سزا پر بحث

ممبئی پر2008 میں ہوئے حملے کی سازش میں شامل رہے ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کو امریکی عدالت نے 35 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ امریکی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی نے پاکستانی نژاد 52 سالہ امریکی شہری ہیڈلی کو ممبئی حملے کی سازش رچنے اور اسے انجام دینے میں اس کی شمولیت کے الزامات میں اکتوبر2009ء میں گرفتارکیا تھا۔ ہیڈلی نے امریکی تفتیشی ایجنسی سے ایک سمجھوتہ کیا تھا جس کے چلتے وہ موت کی سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اس سزا میں پیرول کی کوئی سہولت نہیں ہے اور قصوروار کو اپنی سزا کی کم سے کم 85 فیصدی پوری کرنی ہوگی۔ شکاگو کے جج نے اپنے عدالتی چیمبر میں سزا سناتے ہوئے کہا ہیڈلی ایک آتنک وادی ہے اس نے جرائم کو انجام دیا ہے اور اس میں تعاون دیا ہے۔ اس تعاون کے بعد میں انعام بھی پایا۔ امریکی ضلع مجسٹریٹ جج ہیری لینے ویبر نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں کیا کرتا ہوں ، اس سے آتنک وادی رکیں گے نہیں۔ 35 سال کی سزا صحیح نہیں ہے لیکن میں یہ سزا دئے جانے کو سرکار کی تجویز مانتا ہوں اور35 سال کی سزا سناتا ہوں۔ جج کا کہنا تھا کہ موت کی سزاسنانا زیادہ آسان ہوتا ہے آپ اسی کے حقدار ہیں۔ ہیڈلی کو موت کی سزا سنائے جانے پر تنازعہ چھڑ گیا ہے۔ تمام لوگ اس جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سزا کو مناسب مان رہے ہیں۔ یہاں تک کہ فیصلہ سنانے والے جج لینے ویبر نے بھی یہ ہی کہا۔ مانا جارہا ہے کہ کیونکہ ہیڈلی نے ایف بی آئی کے ساتھ تعاون کیا ہے اس لئے سرکاری وکیل نے ان کی موت کی سزا کی مانگ نہیں کی۔لیکن ہیڈلی کو عمر قید بھی نہ ہونا لوگوں کے گلے نہیں اتر رہا ہے۔ سزا کا اعلان ہوتے وقت عدالت میں موجود متاثروں و ان کے رشتے داروں نے بھی کہا کہ ان کی اکٹھا کردہ اطلاعات کی بنیاد پر جس طرح بربریت اور قتل عام کا مظاہرہ کیا گیا اسے دیکھتے ہوئے ہیڈلی کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ 26 نومبر 2008 کو ممبئی پر ہوئے آتنکی حملے میں 166 لوگ مارے گئے تھے جس میں 6 امریکی شہری شامل تھے۔ ہیڈلی نے اکتوبر2009ء میں شکاگو میں گرفتار ہونے کے بعد یہ قبول کیا تھا کہ اس نے 2006-08 کے درمیان ممبئی کا کئی بار دورہ کیا اور حملے کے نشانوں کی جانکاریاں اکٹھا کیں اور انہیں لشکر طیبہ تک پہنچایا۔ پچھلے ہفتے آتنک واد کے فروغ میں ہیڈلی کے ساتھی رہے تحور حسین رانا کو بھی عدالت نے14 سال کی سزا سنائی تھی۔ بھارت ہیڈلی کی حوالگی کی مانگ کررہا ہے۔ مشکل اس میں یہ آرہی ہے کہ امریکی قانون کے مطابق کسی جرم کے لئے ایک بار سزا ہونے کے بعد ملزم کو دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ جانکاروں کے مطابق ہیڈلی دہلی اور کئی جگہ دورہ کرکے مقامات کی ٹوہ لی تھی اور امریکی عدالت نے اس کے لئے اسے سزا نہیں دی۔ اس لئے بھارت حوالگی کی اپنی مانگ جاری رکھ سکتا ہے۔ امریکہ نے ہیڈلی کو بھارت بھیجنے کی مانگ کو مسترد کردیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا کہ ہیڈلی کے خلاف امریکہ میں مقدمہ چلا ہے۔اسے یہیں قصوروار پایا گیا ہے اور وہ سزا بھی امریکہ میں ہی گذارے گا۔ ہمارے مطابق انصاف ہوچکا ہے اور یہ آتنک واد کے خلاف لڑائی میں امریکہ اور بھارت کو تعاون ایک بہت مثبت مثال مانی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ اور بھارتیہ حکام کے درمیان بہترین تعاون اور تال میل کے سبب ڈیوڈ ہیڈلی کے خلاف جانچ اور مقدمے آگے بڑھ گئے ہیں۔ ممبئی میں 26/11 معاملے میں خصوصی وکیل اجول نکم کا ردعمل تھا کے ہیڈلی کو اس معاملے میں سرکاری گواہ بنا دینا چاہئے تاکہ گناہگاروں کو سزا مل سکے۔ نکم کا کہنا ہے کہ یہ اہم ہے کے ہیڈلی کی سزا ہو لیکر کئے گئے سمجھوتے ہو قبول کیا جانا تھا اور وہ26/11 آتنکی حملے میں امریکہ کی طرف سے گواہی دے گا۔ اب پاکستان کو ہیڈلی کو 26/11 معاملے میں ملزم بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو اسے سرکاری گواہ بنانا چاہئے اور ویڈیو کے ذریعے اس کا بیان درج کرانا چاہئے۔ پاکستان ہمیشہ کہتا ہے لشکر طیبہ کے چیف حافظ سعید کے خلاف اس کے پاس ثبوت نہیں ہیں لیکن اجمل قصاب نے اپنے بیان میں سعید کا نام لیا تھا۔ ہیڈلی نے 26/11 کی سازش میں اہم کردار نبھایا تھا اور قبول بھی کیا ہے۔ ہیڈلی کے خلاف ثبوت بہت اہم ہیں کیونکہ دنیا بھر میں خوف پیدا کرنے کے ارادے سے ممبئی میں قتل عام کی اسکیم لشکر طیبہ کی سازش کو پورا کرنے کے لئے ہیڈلی نے اس کے بڑے نیتاؤں سے بات کی ہوگی۔ بہرحال بہتر ہوگا کے ہیڈلی کی حوالگی کی مانگ کے ساتھ ساتھ ہم امریکہ کی عدالتی کارروائی پر بھی گہرائی سے غور کریں۔ چست عدالتی کارروائی اور مقررہ وقت میں عدالتی سماعت کی کمی کی وجہ سے ہیڈلی جیسوں کی حوالگی سے کیا حاصل ہوگا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟