تنازعہ ہی بن گئے ہیںیہ پدم ایوارڈ

ہر سال یوم جمہوریہ کے موقعہ پر دئے جانے والے پدم ایوارڈ کا تنازعوں سے پرانا رشتہ ہے۔ الگ الگ میدانوں میں تعاون دینے والوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی محنت اور ہنر کو تسلیم کرنے کے اس سلسلے میں آزادانہ چناؤ ہونے سے کہیں زیادہ چاپلوسی،امتیاز برتے جانے کی بو آنے لگی ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کسی کو ایوارڈ نہ ملنے کی مایوسی ہے تو کسی کو ایوارڈ اس کے کارنامے کے مقابلے کم لگتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جواپنے تازہ ترین کارنامے کوپدم ایوارڈ میں نہ بدلتے دیکھ دکھی ہوتے ہیں۔ ایک ایسے دیش میںیہ سب کچھ ہوتا ہے جہاں ان کے کارناموں کے بغیر پہچان اور سنمان کے اس لہر میں گم ہوجاتی ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ پدم ایوارڈوں کی فہرست میں ایسے لوگوں کے نام شامل ہوتے ہیں جو اقتدار اعلی کے کافی قریب ہوتے ہیں۔ آپ کو ایسے نام مل جائیں گے جو شاید اس ایوارڈ کے لائق ہوں اور اقتدار اور سچائی ایک دوسرے کے کٹر مخالف ہیں اس لئے اقتدار کو سچائی لکھنا اور بولنا اچھا نہیں لگتا۔ آپ نے کیا اچھے کام کئے یہ اتنا اہم نہیں ہوتا بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ حکمراں فریق کے کتنے قریب ہو۔ آپ حکمراں لیڈروں کے گھر کتنی حاضری لگاتے ہو۔ اگر آپ حکمران اعلی طبقے کی چاپلوسی نہیں کرتے تو آپ کو کبھی بھی پدم ایوارڈ نہیں مل سکتا کیونکہ ماضی گذشتہ میں کئی بار روایت سے ہٹ کر ایوارڈ اقتدار کے نزدیکی لوگوں کو بھی دے دئے جاتے ہیں اس لئے اب انتخاب پر انگلی اٹھانا آسان ہوگیا ہے۔ جو ان اعزاز کی ایک طرح سے توہین ہے۔ لیکن اس کو بدقسمتی ہی کہیں گے کے تنقیدوں کے باوجود انتخاب کا طریقہ نہیں بدلتا۔ یہ ایوارڈ کئی بار کس طرح سے خانہ پوری کرکے دے دئے جاتے ہیں اس کی تازہ مثال راجیش کھنہ ہیں۔ ہندی سنیما کے اس پہلے سپر اسٹار کوبعدازمرگ پدم بھوشن ایوارڈ دیا گیا ہے۔ کیا وہ زندہ رہتے ہوئے اس اعزاز کے حقدار نہیں تھے؟ یا بوڑھاپا اور موت ہی کسی فنکار کو ایوارڈ کے لائق بناتی ہے؟ ساؤتھ انڈیا کی مشہور گلوکارہ جانکی نے اس بار خود کو ملے پدم بھوشن کے اعزاز کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کی شکایت ہے کہ انہیں یہ ایوارڈ بہت دیر سے دیا گیا۔جانکی کے طویل کیریئر کو دیکھتے ہوئے ان کا یہ اعتراض واجب لگتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے پدم ایوارڈ کے سلسلے میں نارتھ انڈین کو ترجیح دینے کا جو الزام لگایا ہے وہ ایک جذباتی شکایت زیادہ لگتی ہے۔ اگر سلیکشن کمیٹی کانظریہ شمالی ہندوستانیوں کو لیکر نرم ہوتا تو دو بار اولمپک میڈل ونر سشیل کمار کو انہی کی طرح ناراض نہیں ہونا پڑتا۔ سشیل کی شکایت ہے مسلسل دو بار اولمپک میڈل جیتنے والے اکلوتے ہندوستانی ہونے کے باوجود پدم بھوشن نہیں دیا گیا۔ قابل غور ہے سشیل نے 2008 میں بیجنگ اولمپک میں تانبے کا میڈل جیتا اور 2012ء میں لندن اولمپک میں سلور میڈل جیتا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ انہیں اس بار ایوارڈ دینے میں قاعدے آڑے آگئے جو ایک شخص کو ملنے والے دو ایوارڈوں کے درمیان باقاعدہ وقفے کی مانگ کرتے ہیں لیکن اسے کمزور بہانہ کہا جائے گا کیونکہ خصوصی معاملوں میں اس قاعدے میں تبدیلی کی سہولت موجود ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ بار بار تنازعات کے باوجود پدم ایوارڈ دینے کا طریقہ کیوں نہیں بدلا جاتا؟ اگر طریقہ نہیں بدل سکتا تو بہتر ہو کے انہیں بند کردیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟