عامر کے ’ستیہ مے جیتے ‘ شوسے بوکھلائے ڈاکٹر


عامر خاں کے تازہ ’ستیہ مے جیتے‘ پروگرام سے ڈاکٹر برادری کا بوکھلانا فطری ہے۔ عامر نے وہ کڑوی سچائی دکھائی ہے جو آج کل ہورہی ہے۔ پیسوں کی خاطر زبردستی ٹیسٹ کروانا۔ ضرورت نہ ہونے پر بھی آپریشن کرنا، غلط سرجری کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب دھاندلیاں جاری ہیں۔ ڈاکٹروں کی جوابدہی کچھ بھی نہیں ہے۔ عامر خاں نے اپنے بیحد مقبول پروگرام ’ستیہ مے جیتے‘ میں ڈاکٹر برادری کی دکھتی رکھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ وہ تلملا اٹھے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا بھی بہت خراب تجربہ ہے۔ ہمیں اپنے والد سورگیہ شری کے ۔نریندر کو مشرقی دہلی کے ایک نامور ہسپتال میں بھرتی کروانا پڑا۔ انہیں زکام کی شکایت تھی جس سے انہیں نمونیہ ہوگیا تھا اور اس کے علاج کے لئے بھرتی کرایا لیکن واپس ان کا مردہ جسم ہی ہسپتال سے لیکر آئے۔ اس چکر میں لاکھوں روپیہ کا بل بن گیا۔ بہت ناراضگی تھی۔ پہلے ہسپتال پر کیس کرنے کی سوچی، پھر ہمیں بتایا گیا کہ ہر بڑا ہسپتال کورٹ معاملوں کے لئے تیار رہتا ہے اور اس کام کے لئے انہوں نے وکیلوں کی فوج بھی رکھی ہوئی ہے۔ جہاں تک ریکارڈ کا سوال ہے وہ اتنا پکا بنا کر رکھتے ہیں کہ عدالت میں اسے غلط ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔ ہار کر ہم چپ بیٹھ گئے۔ ہم نے ہسپتال میں دیکھا کہ کس طرح مریض کو بھرتی نہیں کیا جاتا اگر وہ ہزاروں روپے ایڈوانس نہیں دیتا۔ڈاکٹر برادری عامر خاں پر پروگرام کے بعد الٹے الزام لگا رہی ہے۔ ڈاکٹر برادری ان کے پروگرام کو سچائی سے دور مانتی ہے۔ وہ یہ الزام لگا رہی ہے کہ انہیں مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزاد کی شے ملی ہوئی ہے۔ آزاد اور ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے درمیان طویل عرصے سے جھگڑا چل رہا ہے جو دنیا جانتی ہے۔ ڈاکٹر اتنے غصے میں ہیں کہ عامر خاں پر جوابی حملہ بھی کرسکتے ہیں۔ ان کے غصے کو دیکھ کر عامر خاں کو یہ اندیشہ لازمی ہے کہ ابھی انہیں کچھ ہوجائے تو اس کا علاج ملنا مشکل ہوجائے گا۔ کبھی بھگوان کا روپ مانے جانے والے ڈاکٹروں کی عام لوگوں میں پہلے ہی سے ساکھ خراب تھی۔ پروگرام کے بعد اپنے لئے شیطان جیسا لفظ انہیں پگھلے سیسے کی طرح لگ رہا ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے ذرائع کی مانیں تو ان ڈاکٹروں کی برادری کو ویژن پینٹ کرنا اچھا نہیں لگا جس کے اچھے کاموں پر پروگرام میں تالیاں بجی تھیں۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سکریٹری بنسل کلی ڈاکٹروں کے خلاف طویل عرصے سے چل رہی مہم کو دیکھ رہے ہیں۔ انہیں بھی عامر خاں کے پروگرام پر اعتراض ہے۔ کہتے ہیں کہ عامر اپنے پروگرام ’ستیہ مے جیتے‘ میں جو دکھا رہے ہیں اس کا حقیقت سے دور کا بھی واستہ نہیں۔ انہوں نے اپنی سستی مقبولیت کے لئے صرف ڈگری یافتہ ڈاکٹروں کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے دیش میں لوگوں کی جانچ سے ہرسیکنڈ کھلواڑ کررہے جھولہ چھاپہ ڈاکٹروں و ایک دوا کی دوکان میں علاج کررہے کیمسٹوں کو کیوں نہیں بحث کا موضوع بنایا اور انہیں کیوں بخش دیا؟ دیش میں اگر آٹھ لاکھ ڈگری یافتہ ڈاکٹر ہیں تو15 لاکھ فرضی ڈاکٹر ہیں۔ وہ بتائیں کہ ان کی ڈگری کیسے چھنوائیں گے؟ عامر خاں بتائیں کے وہ کسے ڈاکٹر مانتے ہیں؟ کیا یووراج سنگھ کو غلط دوا دینے والے ان کے خود ساختہ فیزیو ڈاکٹر جتند چودھری کو وہ ڈاکٹر مانتے ہیںیا نہیں؟ انل بنسل کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ ڈاکٹر ایمانداری سے اپنا کام کررہے ہیں۔10 فیصد اگر گڑ بڑی کررہے ہیں تو انہیں سزا دینے سے کون روک رہا ہے۔ عامر خاں پہلے لاکھوں نقلی ڈاکٹروں سے دیش کو نجات دلائیں جو لوگوں کے ڈاکٹر کے نام پر لوٹ رہے ہیں ان کی جان بھی لے رہے ہیں۔ ہارٹ کیئر فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر کے۔ کے اگروال نے کہا عامر خاں کو ڈاکٹروں کی جگہ سسٹم کو نشانے پر لینا چاہئے تھا انہوں نے سرکار کو کیوں بخش دیا؟ ہیلتھ سروس کو بہتر بنانے میں کیا سرکار کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے؟ ڈاکٹر اگروال بتاتے ہیں کہ میں نے آج10 مریضوں کو جینیٹک دوا لکھی ہے۔ سب واپس آگئے انہیں وہ دوائیں کہیں نہیں ملیں۔ جینیٹک دوا کی دوکانیں سرکار کیوں نہیں کھولتی؟ مجھے تو لگتا ہے کہ پورا ’ستیہ مے جیتے‘ پروگرام ہی ڈاکٹروں کو نشانے پر لینے کیلئے بنایا گیا ہے۔ ابھی تک پروگرام گمراہ کن ہے اور ان چار میں سے تین ڈاکٹروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟