ڈنر ڈپلومیسی سے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش


جوڑ توڑ کی سیاست میں ماہر کانگریس نے ایک بار پھر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ یوپی اے II- کے تین برس پورے ہونے کے موقعہ پر منعقدہ تقریب میں ملائم سنگھ یادو کو دئے احترام کی فوراًاہمیت بھلے ہی نہ ہو لیکن اس سے کانگریس کی حکمت عملی صاف جھلکتی ملی۔ مزیدار بات یہ ہے کہ نوجوان راہل گاندھی نے جس سماجوادی پارٹی کا حال میں ہوئے یوپی چناؤ میں چناؤ منشور پھاڑا تھا ،اسی ملائم سنگھ یادو نے صرف یوپی اے سرکار کی کارناموں کی رپورٹ کارڈ ہی جاری کی بلکہ ڈنر ٹیبل پر انہیں سونیا گاندھی نے اپنی ٹیبل پر جگہ دی۔ یوپی اے خاص طور سے کانگریس اور سپا کے رشتوں کو 1999 ء کی نظر سے دیکھنا چاہئے جب ملائم سنگھ یادو نے این ڈی اے سرکار کے ایک ووٹ سے گرنے کے بعد عین موقعہ پر سونیا گاندھی کو حمایت دینے کا خط دینے سے انکار کردیا تھا۔ اگر اس وقت سونیا گاندھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں تو اس کی ایک وجہ ملائم کی مخالفت تھی ۔ اس کے بعد2004ء کو دوسرا موڑ آیا۔ جب ملائم اور اترپردیش میں تاریخی جیت حاصل کرنے کے بعد بھی یوپی اے سرکار کے بلاوے کا انتظار کرتے رہ گئے۔ اب یہ تیسرا دور شروع ہوا ہے۔ سیاست میں نہ تو کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی دوست۔اس لئے ہمیں تعجب نہیں ہوا جس سماجوادی پارٹی کا چناؤ منشور راہل گاندھی نے پھاڑا تھا آج اسی کے چیف کو عزت وہی پارٹی دے رہی ہے۔ کانگریس نے ملائم سنگھ کا اعزاز کرکے سیدھا سندیش ممتا بنرجی کو دینے کی کوشش کی ہے۔ بات بات پر یوپی اے سرکار کو آنکھیں دکھانے والی ممتا کے لئے یہ اشارہ ہے کہ اگر وہ کسی بات پر سرکار سے حمایت واپس لیتی ہے تو سپا کی ٹھنڈی چھاؤں میں سرکار کو سہارا مل سکتا ہے۔ ملائم کے سہارے سے کانگریس نے اتحادی پارٹی ترنمول کانگریس کو یہ احساس کرادیا ہے کہ اس نے بات بات پر مرکزی سرکار پر زیادہ دباؤ بنایا تو سپا سرکار کا حصہ بن سکتی ہے۔ مگر اسکے باوجود آج ملائم کا پلڑا بھاری دکھائی پڑتا ہے۔ یوپی اسمبلی چناؤ میں 225 سیٹیں جیتنے کے بعد اگر ان کی پارٹی انہیں پردھان منتری کے عہدے کے دعویدار کے طور پر دیکھ رہی ہے تو اس میں آنے والی سیاست کی کنجی بھی چھپی ہے۔ اس لئے ہمیں نہیں لگتا کہ ملائم سنگھ جیسا سیاست کا ماہر کھلاڑی کانگریسیوں کی چال بازی میں اتنی آسانی سے پھنس جائے گا۔ اترپردیش میں مرکز کی مدد کے لئے یوپی اے کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنا ہمیشہ کی مجبوری ہے لیکن اگر وہ یوپی اے میں شامل ہوتے ہیں تو یہ ان کے لئے ایک طرح سے خودکشی کے مترادف ہوسکتا ہے۔ یہ ہی بات ممتا بہن جی پر لاگو ہوتی ہے جن کی قیمت پر ملائم کے ساتھ آنے کی قیاس آرائیاں ہیں۔ ممتا بھی جانتی ہیں کہ آج یوپی میں بنے رہنا ہی ان کے لئے فائدے مند ہے کیونکہ سرکار میں رہ کر مغربی بنگال کے لئے وہ جوابدہ بن سکتی ہیں اور وہ سرکار سے باہر نکلنے پر نہیں بن سکیں گی۔ کانگریس کا ملائم کو اعزاز دینے کے پیچھے ایک اور وجہ یہ ہی ہوسکتی ہے کہ صدارتی چناؤ سر پر ہیں بغیرسپا کی حمایت سے کانگریس اپنا امیدوار چنوانے میں دقت محسوس کرسکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!