کانگریس کے ہاتھ سے پھسلتا آندھرا پردیش: گرفتاری کی سیاست


مدھیہ پردیش کے سابق مقبول وزیر اعلی راج شیکھر ریڈی کے ممبر پارلیمنٹ بیٹے جگموہن ریڈی کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاری پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا یہ ہونا ہی تھا۔ جگموہن ریڈی بہت دنوں سے کانگریس لیڈر شپ کی آنکھ کی کرکری بنے ہوئے تھے۔ تین دن کی گہری پوچھ تاچھ کے بعد سی بی آئی نے آمدنی سے زائد اثاثہ کمانے کے الزام میں انہیں گرفتار کرلیا۔ ا س سیپہلے آندھرا ہائی کورٹ نے بھی جگن کو پیشگی ضمانت دینے سے انکارکردیا تھا۔ جگن سے وابستہ کرپشن کے معاملوں میں ریاست کے بہت سے لیڈر، افسر، صنعتکار اور بچولئے پہلے ہی سی بی آئی کے شکنجے میں آچکے تھے اس لئے جگن کی پوچھ تاچھ اور گرفتاری کی پیشگوئی پہلے سے ہی چل رہی تھی۔ بحث تو یہ تھی کہ والد کی کرسی کی طاقت پر راتوں رات ارب پتی بنے اس نوجوان لیڈر کو سی بی آئی پہلے ہی دن سلاخوں کے پیچھے ڈال دے گی لیکن سی بی آئی نے یہ کام تیسرے دن کیا۔ اس تاخیر کے پیچھے کہیں اس نظریئے کو دور کرنا تو نہیں تھا کہ جگن کو سلاخوں میں ڈالنے کے سبب کے پیچھے کرپشن سے زیادہ سیاست چھپی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ راج شیکھر ریڈی کی حادثے میں موت کے بعد بیٹے جگن نے کانگریس کی ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر حادثے سے موت کے باعد راج شیکھر ریڈی کا انتم سنسکار بھی نہیں ہوا تھا کہ وہاں غم ظاہر کرنے گئے کانگریس کے اعلی نیتاؤں کے آگے جگن نے خود کو والد کی کرسی کا وارث بننے کی خواہش ظاہر کردی۔ پارٹی اعلی کمان کو یہ گوارہ نہیں تھا کیونکہ والد کی طاقت پر وسیع دولت کے مالک بن بیٹھے جگن کے کرپشن کے قصوں سے زیادہ اسے جگن کی آسمانی توقعات کا ڈر تھا۔ یہ جب ہے کہ گرفتاری سے جگن کو ہمدردی کا فائدہ ملنے اور کانگریس کو سیاسی نقصان ہونے کے آثار ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس تضاد کے لئے کسی حد تک خود کانگریس ذمہ دار ہے۔ اس نے کبھی یہ نہیں ظاہر ہونے دیا کہ جگن موہن ریڈی کو ناجائز کمائی اس کیلئے فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ اسے پریشانی تب محسوس ہوئی جب جگن بڑی توقعات کے خواب دیکھنے لگے۔ وہ اپنے والد کے سیاسی جانشین ہونے کا دعوی کر بیٹھے یہ محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ جگن موہن ریڈی کے خلاف سی بی آئی جانچ اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے کانگریس سے الگ ہوکر وائی ایس آر کانگریس کے نام سے الگ پارٹی بنا لی۔ آندھرا پردیش کانگریس کا گڑھ رہا ہے۔ 2004ء اور پچھلے انتخابات میں بھی اسے سب سے زیادہ سیٹیں اسی ریاست سے ملی تھیں لیکن راج شیکھر ریڈی کے مرنے کے بعد ریاست میں جتنے بھی ضمنی چناؤ ہوئے ان سب میں کانگریس کو بری طرح منہ کی کھانی پڑی۔ تلنگانہ میں ٹی ایس آر کی بڑی طاقت اس کے لئے الگ درد سر بنی ہوئی ہے۔ 12 جون کو ریاست میں لوک سبھا کی 1 اور اسمبلی کی 18 سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہونے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ضمنی چناؤ میں بھی کانگریس کی جھولی خالی رہ سکتی ہے۔ اگلے لوک سبھا چناؤ میں بھی اب کانگریس وہ امید نہیں کرسکتی۔ اسے پچھلے چناؤ میں کامیابی ملی تھی۔ کل ملاکر کانگریس کے آندھرا پردیش ایک چنوتی بنتا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟