ریزرویشن کے نام پر اقلیتوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش


مرکزی سرکار کو یہ معلوم تھا کہ اترپردیش اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے اس نے جو کانگریس پارٹی کو اقلیتی ووٹ دلانے کی امید سے اقلیتوں کے لئے جو ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دیا ہے اسے عدالت منسوخ کرسکتی ہے ۔ لیکن پھر بھی مرکز نے ایسا کیا جیسا کے امید تھی اور ویسا ہی ہوا۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے مرکزی سرکار کو زبردست جھٹکا دیتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے سے انکار کردیا۔ قابل ذکر ہے کہ اترپردیش اسمبلی چناؤ کے دوران مرکز نے او بی سی کے 27 فیصد کوٹے سے ساڑھے چار فیصدی ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ریزرویشن سبھی اقلیتی طبقوں کے لئے تھا۔ حالانکہ مانا جارہا تھا کہ اس اعلان کے پیچھے مسلم ووٹ بینک کو لبھانا تھا۔ عین وقت پر کئے گئے اعلان پر چناؤ کمیشن نے اسمبلی چناؤ تک عمل کرنے پر روک لگا دی تھی۔ سرکار نے نتیجہ اعلان ہونے کے ساتھ ہی اس کو نافذ کردیا۔ مرکزی حکومت نے ایک شگوفہ چھوڑا تھا جو اب عدالت نے منسوخ کردیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں بھارت کے آئین میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مرکزی سرکار کا یوپی اسمبلی سے ٹھیک پہلے اٹھایا گیا یہ قدم مفادی سیاست پر مبنی تھا اور اقلیتوں کو خاص طور سے یوپی کے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی ایک کوشش تھی۔ ہائی کورٹ نے صاف کہا ہے کہ مرکزی سرکار کا یہ فیصلہ محض مذہبی بنیاد پر لیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ہائی کورٹ نے اس اشو پر لاپروائی سے کام کرنے کیلئے مرکزی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مرکز کی جانب سے یہ دلیل دی گئی کہ یہ فیصلہ سچر کمیٹی کی سفارشوں کی بنیاد پر لیا گیا اور ایسا کرکے اس نے 2009ء کے چناؤ منشور میں درج اپنے وعدے کو پورا کیا ہے۔ باوجود اس سب کے یہ نہیں بتا سکی کہ جو وعدہ 2009 ء میں کیا گیا تھا اسے پورا کرنے میں 2012 ء تک اتنا عرصہ کیوں لگا۔ جب پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے پروگرام کا اعلان ہونے والا تھا تب یہ کیوں اعلان کیا گیا؟ شاید یہ ہی وجہ رہی ہو کہ چناؤ کمیشن نے چناؤ ہونے تک اس فیصلے پر عمل کیلئے روک لگادی۔ چناؤ کمیشن کے ذریعے اس پر روک لگانے سے ثابت ہوگیا ہے کہ یہ چناوی فائدے کے لئے لیا گیا ایک سیاسی فیصلہ تھا۔اب سرکار اور کانگریس دونوں اقلیتی ریزرویشن پر ہائی کورٹ کی اس چابک کی مار سے نکلنے کا راستہ تلاشنے میں لگ گئے ہیں۔ سلمان خورشید نے کہا ہے کہ سرکار آندھرا ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ دلیل یہ دی جائے گی کہ یہ فیصلہ مذہبی نہیں زبان کی بنیاد پر لیا گیا تھا۔ سرکار اپنی پارٹی کانگریس کو دلاسہ دے رہی ہے کہ سپریم کورٹ میں صحیح سے اپنا موقف رکھنے سے اقلیتی ریزرویشن کا معاملہ سلجھ جائے گا۔ سرکار اپنی ہار کو وکیلوں کے ذریعے ٹھیک طرح سے پیش نہ کرپانے کی وجہ مان رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں پچھڑوں کے لئے کوٹے کے اندر مسلمانوں کے لئے ایک یقینی کوٹے ہی بات رکھنے کی مضبوط دلیل دینی ہوگی۔ ہائی کورٹ چاہے گی کہ سرکار بتائے کہ اقلیتوں کو جو پسماندہ ہیں حقیقت میں کتنے پچھڑے ہوئے ہیں؟ وزیر قانون سلمان خورشید سے جب یہ ہی سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کے لئے عدالت کو سمجھانے کی مشکل نہیں ہوگی کیونکہ سرکار اقلیتی پسماندوں کے لئے الگ سے فہرست نہیں بنانے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا پسماندوں کے لئے ریزرویشن طے کرنے والے منڈل کمیشن نے جو خاکہ دیا سرکار اس کے دائرے کے اندر ہی کورٹ میں بات رکھے گی۔ وزیر قانون نے تسلیم کیاکہ سرکار آئین سے باہر نہیں جارہی ہے۔ سپریم کورٹ اس مسئلے پر کیا رخ اختیار کرتی ہے وقت ہی بتائے گا۔ اس سے انکار نہیں کہ اقلیتوں اور خاص طور پر مسلم سماج کی سماجی، اقتصادی سلامتی کے لئے مزید قدم اٹھائے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ایسا صرف چناوی فائدے یا ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ مسلم سماج اب سیاسی چال بازیوں میں پھنسنے والا نہیں۔ اس نے دیکھ لیا ہے کہ پچھلی چھ دہائیوں سے ان سیاسی پارٹیوں نے انہیں کیسے گمراہ کر محض ووٹ بینک کی خاطر استعمال کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!