کیا نریندر مودی پارٹی سے اوپر ہوچکے ہیں؟
Published On 21st October 2011
انل نریندر
کچھ وقت پہلے سے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھاجپا کے درمیان کچھ حساب کتاب ٹھیک نہیں لگ رہا ہے۔ بھاجپا میں مودی کو لیکردونوں ناراضگی اور علیحدگی پسندی کا جذبہ پیدا ہونے لگا ہے۔ بھاجپا کی لیڈر شپ کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کو اب غرور ہوگیا ہے اور وہ اپنے آپ کو پارٹی سے اوپر ماننے لگے ہیں۔ پارٹی نے مودی کو ان کی حیثیت کا احساس کروانا شروع کردیا ہے۔ لال کرشن اڈوانی کی جن چیتنا یاترا پر آنکھیں دکھانے والے نریندر مودی کو اس یاترا میں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں اور اب اخباروں میں ان کی سرخیاں بھی کم دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اڈوانی جی نے اپنی یاترا میں بھاجپا کی طرف اور تمام وزیر اعلی کے کام کاج اور کارناموں کا ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک کسی بھی بڑے جلسے میں نریندر مودی کا نام تک نہیں لیا ہے۔ یہ ہی اڈوانی پہلے نریندر مودی کو ایک مثالی وزیر اعلی کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتے تھے۔ بھاجپا لیڈر شپ کا خیال ہے کہ مودی کا سیاسی قد کافی بڑا ہوسکتا ہے اور انہیں احساس کرانے کی ضرورت ہے ۔پارٹی ان کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ پارٹی سے ہیں۔ اس مسئلے پر اب غور کیا جارہا ہے کہ اگلے سال اترپردیش و دیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں مودی کو پرچار کے لئے نہ بلایا جائے۔ پارٹی کو لگتا ہے کہ وہ اپنی کٹر پسند ہندوتو ساکھ کے سبب اگر مودی پرچار کرتے ہیں تو تمام مسلمان بکھرجائیں گے۔ بھاجپا کا مودی کی وجہ سے اختلاف کرنا شروع کردیں گے۔ بھاجپا کو یہ معلوم ہے ایک بھی مسلمان ووٹ اسے ملنے والا نہیں لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ بلاوجہ مسلمان پارٹی کے خلاف جارحانہ رویہ اختیارکرلے۔ پارٹی اترپردیش میں پسماندہ اور انتہائی پسماندہ طبقے کو اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے نتیش کمار کی مدد لینا بہتر متبادل سمجھنے لگی ہے۔ نتیش کمار نریندر مودی کے کٹر مخالف مانے جاتے ہیں یہ محض اتفاق نہیں کہ مسٹر اڈوانی نے اپنی جن چیتنا یاترا کو بہار سے شروع کیا اور اس یاترا کو ہری جھنڈی بھی نتیش کمار نے ہی دکھائی تھی۔ بہار اسمبلی چناؤ کے دوران بھی انہوں نے مودی کو ریاست میں نہ بھیجنے کی وارننگ دی تھی۔ بھاجپا نے اس پر عمل کیااور نتیجے سب سامنے ہیں۔آج نتیش کمار این ڈی اے کے سب سے طاقتور امیدوار بن کر ابھرے ہیں۔ بھاجپا کو بھی یہ اچھا لگتا ہے کہ وہ این ڈی اے کو آگے بڑھائے اور اس راستے سے وہ اقتدار تک پہنچے۔ مودی کا قد چھوٹا کرنے کے لئے بھاجپا لیڈر شپ اور سنگھ نے مل کر جان بوجھ کر سنجے جوشی کو ذمہ داری سونپی ہے۔ نریندر مودی سنجے جوشی کو بیحد نا پسند کرتے ہیں۔ انہیں تنظیمی سکریٹری کے عہدے سے ہٹوانے میں ان کا بہت اہم کردار رہا۔ ویسے تو لال کرشن اڈوانی بھی سنجے جوشی کو پسند نہیں کرتے کیونکہ جناح معاملے میں سنجے جوشی نے ہی اڈوانی کو پارٹی صدارت سے استعفیٰ دینے کو کہا تھا۔ عام طور پر پردھان اپنا استعفیٰ نائب پردھان کو دیتا ہے لیکن اڈوانی نے اپنا استعفیٰ سنجے جوشی کو بھیجا تھا۔شری نریندر مودی کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں وہ اپنے گھر میں ہی گھرتے جارہے ہیں۔ گجرات دنگوں کے معاملے میں نریندر مودی کو پھنسانے کے لئے جھوٹے ثبوت گھڑنے والے معطل اور پھر گرفتار کئے گئے آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو مقامی عدالت نے تمام اختلاف کے باوجود ضمانت دے دی۔ عدالت نے اس معاملے پرشبہ ظاہر کیا جس کے تحت اسے گرفتار کیا گیا۔ رہا ہوتے ہی بھٹ نے مودی پر حملہ بول دیا اور ان کو مجرم بتاتے ہوئے کہا کہ میرے لئے مودی صرف ایک مجرم ہیں جو وزیر اعلی بن گئے ہیں۔ مودی اور ان کے لوگ خود کو بچانے کے لئے میرا قتل کروا سکتے ہیں جیسا کہ ہریند پانڈیہ کا کرایا گیا تھا۔
یہ یقینی ہے کانگریس جو سنجیو بھٹ کو اکسارہی ہے۔ ان کو ضمانت پر چھڑوانے اور باہر آنے کا پورا فائدہ وہ اٹھائے گی۔ حیرانگی تو اس بات پر بھی ہے کہ گجرات کے تین سینئر پولیس افسران نے سنجیو بھٹ کی کھلی حمایت کی ہے۔ 30 ستمبر کو بھٹ کی گرفتاری کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب افسران بھٹ کے خاندان سے ملنے گھر گئے اور سنجیو کی بیوی شویتا سے ملاقات کی، جو دو گھنٹے چلی۔ شویتا نے بتایا کہ تینوں افسران نے سنجیو کے ساتھ ہورہی نا انصافی پر افسوس ظاہر کیا اور مدد کا یقین دلایا۔ آنے والے دنوں میں لگتا ہے کہ نریندر مودی کی پریشانیاں بڑھنے والی ہیں گھٹنے والی نہیں۔
Anil Narendra, Bihar, BJP, Daily Pratap, Gujarat, L K Advani, Narender Modi, Nitin Gadkari, Nitish Kumar, Rath Yatra, Sanjay Joshi, Sanjeev Bhatt, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں