حصار سے اٹھی تبدیلی اقتدار کی آندھی کانگریس روک پائے گی؟



Published On 20th October 2011
انل نریندر
حصار لوک سبھا ضمنی چناؤ کانگریس کے لئے دوررس اثر ڈال سکتے ہیں۔دونوں ٹیم انا اور اپوزیشن پارٹیوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ہریانہ کے حصار اور پارلیمانی حلقے سمیت جن پانچ ریاستوں کی اسمبلی سیٹوں کے لئے 13 اکتوبر کو ضمنی چناؤ ہوئے تھے ان میں چار کے نتیجے کانگریس کے خلاف گئے۔ یہ ہی نہیں حصار میں کانگریس امیدوار کی ضمانت بھی ضبط ہوگئی۔ ان میں آندھرا پردیش، مہاراشٹر، بہار ریاستیں شامل تھیں۔ حصار پارلیمانی حلقے کو کانگریس نے اپنے وقار کا اشو بنا لیا تھا۔ انا کی اپیل کو پنکچر کرنے کے لئے کانگریس نے اپنی پوری طاقت لگا دی تھی۔ اپنے امیدوار جے پرکاش کی ساکھ بتانے کے لئے پارٹی نے پیسہ پانی کی طرح بہایا اور اغل بغل تین وزرائے اعلی اور ہریانہ کے سبھی وزیر اور دہلی سے اسٹار کمپینر کو حصار بھیجا گیا۔ راجستھان سے اشوک گہلوت، دہلی سے شیلا دیکشت گئیں اور خود ہریانہ کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا بھی وہیں ڈیرا ڈالے رہے۔ ساری انتظامی مشینری کا استعمال اور پلاٹ بانٹے گئے۔ وظیفے تقسیم کئے گئے۔ ہیڈ کوارٹر سے کئی جنرل سکریٹریوں نے حصار میں اپنی حکمت عملی بنائی۔ اسٹار کمپینر راج ببر نے خود ریلیاں کیں ، نتیجہ رہا صفر ۔جے پرکاش اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے۔ مہاراشٹر کی کھڑک واسلا اسمبلی سیٹ کے لئے کانگریس نے مشترکہ امیدوار اتارا۔ سورگیہ رمیش واگلے کی بیوہ شردھا واگلے کو ٹکٹ دیا گیا تاکہ انہیں ہمدردی کی لہر مل سکے لیکن بھاجپا امیدوار بھیم راؤ نے کانگریس اور این سی پی کے مشترکہ امیدوار کو چاروں خانے چت کردیا۔ راج ٹھاکرے کی پارٹی مہاراشٹر نو نرمان سینا کے ممبر اسمبلی رمیش واگلے کی موت کے بعد یہ سیٹ خالی ہوئی تھی۔ ان کی بیوی شردھا کو این سی پی کا امیدوار مرکزی وزیر شرد پوار کی خاص ہدایت کے بعد بنایا گیا تھا اور ان کے بھتیجے ریاست کے نائب وزیر اعلی اجیت پوار نے شردھا کے حق میں چناؤ مہم کرنے کے لئے دن رات ایک کردی تھی۔ان کے ذریعے کھڑک واسلا سیٹ پر اپنا امیدوار اعلان نہ کئے جانے اور کانگریس این سی پی کے امیدوار کی حمایت کردئے جانے کے بعد یہ سیٹ حکمراں محاذ کے لئے کسوٹی بن گئی تھی۔ شرد پوار اور ان کے بھتیجے اجیت پوار کی اپنے ہی گڑھ میں ہوئی اس مار کا مہاراشٹر کی سیاست پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ وہیں پہلے سے بھاجپا شیو سینا محاذ میں آر پی آئی کے جڑ جانے سے ریاست کی سیاست میں کھڑک واسلا سیٹ کے نتیجے آنے والے دنوں کی چناوی لہر کا پہلا بڑا اشارہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ انا کی کانگریس ہٹاؤ اپیل سے حصار میں تبدیلی کی جو آندھی اٹھی ہے یہ ویسی ہی ہے جیسی 1974ء میں جبلپور اور 1989ء میں الہ آباد ضمنی چناؤ سے اٹھی تھی۔
حصار کا نتیجہ کرپٹ راج کے خاتمے کی کہیں شروعات تو نہیں ہے ؟ اب تبدیلی کا یہ سلسلہ اگر اترپردیش میں ان چار ریاستوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ جہاں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے ہیں تو یہ کانگریس کے لئے بڑی تشویش کا موضوع بن جاتا ہے۔ 1989ء میں تاریخ نے الہ آباد کے چناؤ میں تبدیلی اقتدار کی اپیل وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے بوفورس گھوٹالے کے بعد بھی اپوزیشن وی پی سنگھ کے پیچھے متحد ہوئی تھی۔ ضمنی چناؤ میں کانگریس کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ اس ضمنی چناؤ سے اٹھی کانگریس مخالف ہوا کو اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی روک نہیں سکے تھے۔ آج تو راجیو جی کے مقابلے ایک بہت کمزور وزیر اعظم ہیں اور رہا سوال گھوٹالوں کا تو پوچھئے مت۔ کانگریس خوش فہمی پال سکتی ہے کہ اہم چناؤ ابھی دور ہیں تب تک گھر سنبھال لیا جائے گا لیکن ساکھ گنوا چکی سرکار کو حصار کا مینڈیڈ چاروں طرف سے گھیرے گا۔ یہ مینڈیڈ اپوزیشن بکھراؤ کو روکے گا۔ حصار 1974ء اور 1989 ء کی طرح اپوزیشن اتحاد کی ایک دھری بن سکتا ہے۔ کانگریس اگر اب بھی نہیں جاگی تو اسے بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
Anil Narendra, Anna Hazare, Ashok Gehlot, Congress, Daily Pratap, Elections, Hissar By Poll, Sheila Dikshit, State Elections, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!