الاسکامیں نہیں بنی بات!
امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور روسی صدرولادیمیر پوتن کی الاسکا ملاقات پر ساری دنیا کی نظریں لگی تھی ۔پچھلے 3 سال سے جاری روس یوکرین جنگ کی خاتمے پر امیدیں لگائی جا رہی تھی۔مستقل امن نا بھی ہوتا تو اتنا تو ہو سکتا تھا کے جنگ بندی تو ہو جائے لیکن ۔ساری امیدیں ٹوٹ گئیں ۔بیشک کچھ مسلوں پر ضرور دونوں ملکوں کے صدور میں رائے بنی لیکن مستقل حل نہیں نکلا ۔3 سال سے الگ تھلگ کئے گئے پوتن کو ٹرمپ نے نہ صرف کھلے دل سے خیر مقدم کیا بلکہ ریڈ کارپیٹ بچھاکر ان کا کھلے طور پر ان کی عزت افزائی بھی کی ۔حالانکہ جس مثلے کےلئے یہ اہم میٹنگ ہوئی تھی اس پر کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آ پایا ۔ٹرمپ - پوتم ملاقات سے یوکرین مثلے پر کوئی فوری حل نہیں نکلا باوجود ییہ ملاقات خاص رہی ۔روس کے یوکرین پر حملے اور جنگی جرائم کے الزامات کے چلتے پوتن مغربی دنیا سے الگ تھلگ پڑ گئے تھے ۔
اس ملاقات نے انہیں اچانک دنیا کے مرکز میں واپس لا دیا امریکہ کے فوجی اڈے پر دونوں لیڈروں کا ساتھ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کی تعریف کرنا ، بات چیت کرنا اور یہاں تک کے ٹرمپ کی لیوجن میں ساتھ بیٹھنا یہ سب ایسے منظر تھے جو امریکہ روس تعلقات کی تاریخ میں کم ہی دیکھے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے میڈیا ایک پریس کا نفرنس کی امید کر رہی تھی لیکن دونوں لیڈروں نے صرف بیان ہی دیئے اور کسی سوال کا جواب نہیں دیا ۔ ٹرمپ نے امید جتائی تھی اور یہاں تک کے دعوی کیا تھا کے وہ روس یوکرین جنگ کو رکوا دیں گے ۔ حالانکہ پوتن نے بھی بھی اسے قبول نہیں کیا۔ پوتن کے لئے یہ ملاقات کسی چیت سے کم نہیں تھی ۔ بغیر کوئی ریاست دیئے انہیں دنیا کی سب سے طاقتور کرسی سے عزت اور اعزاز ملا۔ اس پوری کوشش میں یوکرین کا رول حاشیہ پر رہا اس میٹنگ کے لئے یوکرین کے صدر ولادیمیر ۔ ریلیکسی کو مدعو تک نہیں کیا گیا ۔ الاسکا میں ٹرمپ ۔ پوتن ملاقات کو عالمی میڈیا امن کی سمت میں بہت بھروسے کے ساتھ نہیں دیکھ رہا ہے ۔ روسی میڈیا نے پوتن کی حکمت عملی جیت کا ثبوت مانا یوروپی میڈیا نے امید اور خدشات دونوں جنائے ۔ وہیں عالمی ماہرین اور گھریلوں امریکہ سیاسی حلقوں میں بحث کا بڑا حصہ ٹرمپ کا شخصی کردار اور ان کا مسخری لیڈر جیسی ساخ پر مرکوز رہا۔ نیو یارک ٹائمس نے غیر متوقع شش و میچ کا رخ اپناتے ہوئے ساخ پر سوال مرکوز رہا۔ کیا بات چیت صرف فوٹو اور آپ اور طویل سرخیوں میں تھا حقیقت میں جنگ بندی کی سمت میں ٹھوس قدم ؟ امریکی خفیہ اور ڈفنس حلقوں میں خدشہ ہے کے پوتن نے میٹنگ کا استعمال عالمی اسٹیج پر اپنی ساکھ بہتر بنانے اور یہ دکھانے کے لئے کیا کے امریکہ دراصل روس سے بات چیت کرنے پر مجبور ہوا۔ واشنگٹن پوسٹ نے سیاسی دباؤ بناتے ہوئے سوال اٹھایا کے ٹرمپ کا موڈ پر مبنی قیادت امریکہ کی طویل المدت سیاست حکمت عملی کو کمزور کر رہا ہے ۔ دونوں اخباروں نے لکھا کے ٹرمپ کے فیصلے ان کے موڈ پر منحصر ہیں ۔ آج خوش ہیں تو امن کی بات کریں گے کل غصہ میں ہو توں پلٹ جائے گے۔ ایم ایس این وی نے ٹرمپ کو ریلٹی شو کا میزبان استار قرار دیا کہا تو بل کی چاہ میں ایک بریکار لیڈر اور عالمی اسٹیج پر کوئی ڈرامہ کر سکتا ہے قرار دیا ٹرمپ عالمی اسٹیج پر عالمی سیاست کو شو مین شپ میں بدل رہے ہیں سی این این نے کہا ٹرمپ امن کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ان کا غیر متوقع رکھ سب پر بھاری ہے و ہیں برطانوی اخبار دا گارجین نے بات چیت کو سیاسی بد سمتی بتایا ۔ لکھا بات چیت ایسے وقت ہوئی جب آرتھک خطہ میں روس امریکہ اور آرتک سیاست میں نرمی کا اشار و لگتا ہے۔ اخبار گارجن نے خبردار کیا ٹرمپ کی غیر متوقع ڈپلومیسی سے بات چیت نتیجہ بھرو سے مند نہیں مانے جا سکتے ۔ ادھر روس کے اختبار از دیسٹیا نے لکھا کے ٹرمپ کو ماننا پڑا کے پوتن بغیر یوکرین کا مستقبل طے نہیں ہو سکتا اور اسے کمزور نہ دیکھے روس کی ڈپلومیسی واپسی بتایا ۔ ٹی وی چینل کی بھی آرٹی نے دی میٹنگ کو پوتن کی مضبوطی اور صبر کا نتیجہ قرار دیا اتنا تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں اس میٹنگ میں بلا شبہ ولادیمیر پوتن کو عالمی سفارتی کا ایک منجھا ہوا کھلاڑی بنا دیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کے روس یوکرین جنگ میں جو برف کھلنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے یا الگ ہے۔
(انل نریندر )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں