راتوںرات50لوگوں کو بے گھر نہ کریں!

ہلدوانی میں قبضہ اور ان کو بسانے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے فوری راحت دی ہے جو قابل خیر مقدم کام ہے ۔ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر بسی ناجائز کچی بستیوں کو ہٹانے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر سپریم کور ٹ نے فوری روک لگاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انسانی ہمدردی کا اشو ہے مگر اس کیلئے باقاعدہ حل نکالنے کی ضرورت ہے عدالت کا کہنا تھا کہ 50ہزاور لوگوں کو سات دنوںمیں راتوں رات نہیں نکا لا جا سکتا پہلے بسایا جائے ۔واضح ہو کہ 20دسمبر 2022کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہلدوانی میں ریلوے کی زمین سے قبضہ ہٹانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد احتجاجی مظاہروں کے درمیان ریلو ے حکام نے ان ناجائز بستیوکا سروے کیا تھا ۔مانا جا رہا ہے کہ قبضہ ہٹانے سے 50ہزار لوگ اجڑ جائیںگے۔ 10جنوری کے آپ پاس توڑ پھوڑ کی کاروائی ہونی تھی اور فیصلے سے متاثر لوگوں نے مناسب قدم اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں آخیر اپیل دائر کردی اس کے بعد عدالت عظمہ نے ہمدردی کا ثبوت دیتے ہوئے توڑ پھوڑ پر فوری روک لگاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عوام زندگی کا مسئلہ ہے ۔ بھلے ہی لوگ یہاں ریلوے کی زمین پر دہائیوں سے رہ رہے ہیں اور یہاں بجلی پانی اور اسکول وغیر جیسی رہنے کی ساری سہولیا ہے ۔جہاں ووٹ بینک کے چلتے سبھی پارٹیاں ان لوگوکی پوشیدہ حمایت کرتی ہیں اور چناو¿ میں ووٹ لیتی ہیں ۔اب دلیل یہ دی جارہی کہ یہاں ناجائز تعمیرات ہیں ۔ تو پھر سہولیات کیوں دی گیں ۔ سہی غلط کی بحث اور سیاسی نفع نقصان کی سیاست جاری رہے گی ۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرکار کو انسانی ہمدردی کے طور پر قانون سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کے دوران اترا کھنڈ سرکار اورریلوے کو نوٹس جاری کیا۔ اب اگلی 7فروری کو ہوگی۔ سپریم کورٹ کی روک سے اس کڑاکے کی ٹھنڈ میں ہزاروں لوگوں کو راحت ملی ہے عدالت نے حکم میںریلوے کی جانب سے پیش وکیل سے کہا کہ زمین کی ریلوے کو ضرورت ہے لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا کہ یہ زمین پوری طرح سے ریلوے کی ہے یاکچھ حصہ ریاستی سرکار کا بھی ہے؟ عدالت نے کہا کہ عرضیوںمیں دعویٰ ہے کہ ان کے پاس پٹے کے کاغذ ہیں اور وہ 1947میں ہجرت کرکے آئے ہیں اور زمین کی نیلامی ہوئی تھی ان کایہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں ایسے میں انہیں بسانا تو چاہئے ہی ۔ جبکہ ریلوے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان لوگوںپر کاروائی راتوں رات نہیں ہوئی ہے مقدمہ کافی دنوں سے چل رہا ہے معاملہ بے حد نازک ہے ۔ زمین ریلوے کی ہے ،ریاست کے وکاس کا معاملہ ہے یہ علاقہ ریاست کاگیٹ وے ہے ۔ جسٹس کول کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملے میںکوئی حل چاہتے ہیں ور ر اب آگے کوئی تعمیر یا قبضہ نہ ہو ۔ جسٹس نے اڈیشنل سولیسیٹر جنرل سے کہا کہ جنہیںبھی زمین کی ضرورت ہے پہلے لوگوں کو بسانا چاہئے اہم ترین کسوٹی سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے دی کہ معاملے کا کوئی پائیدار حل نکالنا ہوگا۔ امید کرنی چاہئے کہ سپریم کورٹ کی رائے زنی ایسے دیگر معاملوںمیں خیال رکھا جائے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!