پتھر تو دکھائی دے رہے پر رام سیتو کے باقیات نہیں کہہ سکتے !

پچھلے کچھ برسوں سے خاص کر پچھلا عام چناو¿ بھاجپا نے شری رام کے نام پر لڑا تھا اب پھر سے شری رام کے نام پر ہی چناو¿ لڑنے کی تیار میں ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے چناوی ریاست تریپورہ میں ایک ریلی سے خطاب میں اعلان کردیا کہ اگلے سال 1جنوری 2024تک ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر بن کر تیا رہو جائے گا یعنی اسی اشو پرلو ک سبھا چناو¿ لڑا جا ئے گا۔ ایک طرف تو بھاجپا شری رام کی شرن میں آتی ہے اور ان کے سہارے اقتدار تک پہنچتی ہے وہیں اقتدار میں آنے کے بعد ایک دوسری ٹیون اپنا لیتی ہے ۔ میں بات کر رہا ہوں شری رام کے ذریعے بنائے گئے رام سیتو کی ۔ مرکزی حکومت نے رام سیتو کو لیکر راجیہ سبھا میں جمعہ کو اپنا موقف رکھا ۔ نیوکلیائی توانائی اور اسپیس ٹکنالوجی وزیر جتیندر سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ٹکنالوجی کے ذریعے کچھ حد تک ہم رام سیتو کے ٹکرے آئی لینڈ اور ایک طرح کے لائم اسٹون کے ڈھیر کی پہچان کر پائے ہیں یہ پل کے حصہ ہیں یا باقیات کہہ نہیں سکتے ۔ رام سیتو کی تلاش میں ہماری کچھ حدیں ہیں اس کی تاریخ 18ہزار سال پرانی ہے جس پل کی بات ہو رہی ہے وہ 56کلو میٹر لمبا تھا ۔ سرکار قدیم دور کے اور ایسے معاملوں میں جانچ کر رہی ہے 2007میں یو پی اے سرکارنے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ جیسے کوئی آئینی ثبوت نہیں ہے یہ سیتو انسانوں نے بنایا تھا ۔ جب اس مسئلے زبردست احتجاج ہواتو سرکار نے حلف نامہ واپس لے لیا ۔اب سرکار کہہ رہی ہے کہ پتھر تو نظر آ رہے ہیں اور رام سیتو کے باقیات ہیں ،یہ کہہ نہیں سکتے ؟ بھارت میں رام سیتو پر تنازعہ اور سیاست خوب ہوئی ہے ۔ایک بار پھر سے رام سیتو سیاسی پارٹیوں کے جنگ کا اکھاڑہ بن گیا ہے۔ ہندو دھرم کے قدیمی گرنتھو کے مطابق اس سیتو کو بھگوان رام نے بنوایا تھا جبکہ انگریز اسے اڈم برج کہتے ہیں ۔تو مسلمانوں کے مطابق اسے حضرت آدم نے بنوایا تھا ۔کہتے ہیںکہ جب لنکا کے راجہ راون نے جب ماں سیتا کا ہرن کر لیا تھا تو بھگوان رام نے وانر سینا کی مدد سے اس پل کو بنوایا تھا ۔ اس سیتو کے ذریعے پوری وانر سینا لنکا پہنچی تھی اور راکشسوں کو گھیر کر کے ماتا کو آزاد کرایا تھا ۔بھارت میں رام سیتو کو لیکر اصلی تنازعہ 2005میں شروع ہوا جب اس وقت کی سرکار نے سیتو سمندرم شپنگ نہر پروجیکٹ کو منظوری دے دی تھی اس پروجیکٹ کے تحت اس سیتو کو توڑ کر ایک راستہ تیار کرنا تھا جس سے خلیج بنگال سے آنے والے جہازوں کو سری لنکا کا چکر نہ لگانا پڑے اس سے وقت اور دوری سے اندھن بچانے کا مقصد تھا ۔حالاںکہ ہندو انجمنوں نے اس کی جم کر مخالفت کی اور معاملہ سپریم کور ٹ پہنچا ۔ بتادیں سیتو سمندرم پروجیکٹ کو واجپائی سرکار نے منظوری دی تھی ۔رام سیتو کا اشو کروڑوں ہندوو¿ں کی عقیدت سے جڑا ہے اس سے انکار کرنا نقصان دہ ہوگا۔ اگر آپ بھگوان رام پر یقین کرتے ہیں تو رام سیتو پر بھی یقین کرنا ہوگا۔ کروڑوں ہندو¿ں کا خیال ہے کہ یہ سیتو بھگوان رام نے ہی بنوایا تھا اس کا اگر کوئی سرکار مخالفت کرے گی تو نقصان ہی اٹھائے گی ۔ سرکار کو نہ صرف اسے ماننا ہوگا بلکہ سے قومی وراثت ڈکلیئر بھی کرنا ہوگاجے شری رام! (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!