دہشت گر د تنظیموں کی چینی سانٹھ گانٹھ !
منی پور میں آسام رائفل کے قافلے پر ہوئے آتنکی حملے کے بعد نارتھ ایسٹ میں انتہاپسند گروپوں کے خطرے کو لیکر سکورٹی اور خفیہ ایجنسیاں ایک بار پھر ہائی الرٹ پر ہیں ۔ اور ان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جارہی ہے ۔مانا جارہا ہے کہ اس وقت 20سے زیادہ شدت پسند تنظیمیں نارتھ ایسٹ میںسر گرم ہیں ۔ پی ایل اے سمیت درجن سے زیادہ گروپ منی پور میں بھی خونی کھیل کھیل رہی ہیں ۔ خفیہ ایجنسیوں کو یہ اندیشہ ہے کہ چین کی مدد سے شدت پسندی سرگرمیا ں نئے سرے سے شروع کر سکتی ہیں میانمار میں ان کے کیمپ ہیں ان کا چینی کنیکشن مضبوط ہے ایجنسیوں کو اندیشہ ہے کہ کچھ تنطیموں نے میانمار سے ہٹ کر ساتھ چین کے علاقے میں ٹھکانہ بنا یا ہے ۔ الفہ کے چیف نے میانمار کی سرحد سے لگی ساتھ چین کے روئلی علاقے نیا ٹھکانہ بنا یا تھا ۔ پچھلے سا ل ارونا چل پر دیش میں آسام رائفل کے قتل کے بعد اس طرح کے اندیشات ظاہر کئے گئے کہ چینی تنا رعہ کے دوران الفہ دہشت گر تنظیم نارتھ ایسٹ میں نیا مورچہ کھولنے کی تیا ر میں ہے۔ چینی فور س نارتھ کی ریاستوں میںانتہا پسند تنظیموں کو نہ صرف شہ دے رہی ہے بلکہ وہ ہتھیاروں کی سپلائی کو لیکر محفوظ ٹھکانہ بھی دے رہا ہے۔ چین 1975میںبھار ت سرکار اور ناگا نیشنل کانسل کے درمیان شیلانگ معاہدے کا ایس ایس کھاکلان و تھیونگ لینگ شیوا جیسے لیڈروں مخالفت کی تھی ،جو اس وقت چا ئنا ریٹر ن گینگ کہلاتے تھے 1950میںکھاکلانگ اور موئکانیشنل سوشلسٹ کانسل آف ناگا لن بنا ئی تھی اس کے بعد کئی تنظیمیں بنیں ۔ نارتھ ایسٹ میں باغیانہ واردات میں کئی برسوں سے کمی آئی ہے ۔ حالاں کہ منی پور ابھی بھی انتہا پسندی کا گڑھ بنا ہوا ہے علاقائی زمینی وسائل پر کنٹر ول کی کوشش ،پہچان بنا نے کی جد جہد اور مسلح اسپیشل پاور ایکٹ( افسفا )پر عمل ریاست میں تشد د کی اہم وجہ ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں