گرفتاری آخری متبادل ہونا چاہئے !

آلہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم ترین فیصلے میں کہا ہے کہ ایک شخص جس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس کی گرفتاری پولس کیلئے آخری متبادل ہونا چاہئے جن معاملوں میں ملزم کو گرفتار کرنا ضروری ہے یا حراست میں پوچھ تاچھ ضروری ہے ان معاملوں میں گرفتاری ہونی چاہئے بدھوار کو ایک معاملے میں رائے زنی کرتے ہوئے جسٹس سدھارتھ نے بلند شہر کے باشندے سچھ سینی نام کے ایک شخص کو مشروط پیش کی ضمانت دے دی جس کے خلاف آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس ملزم کے خلاف ایف آئی آر ہے اسے گرفتار کرنے کو لیکر پولس کےلئے کوئی یقینی میعاد طے نہیں ہے عدالت نے کہا ایف آئی آر درج ہونے کے بعد اپنی خواہش سے گرفتاری کرسکتی ہے عدالتوں نے بار بار کہا ہے پولس کیلئے گرفتاری آخری متبادل ہونا چاہئے اور یہ غیر معوملی معاملوں تک محدود ہونا چاہئے جہاںملزم کی گرفتاری یا حراست میں پوچھ تاچھ ضروری ہے تو بے دلیل اور اندھا دھند گرفتاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے عدالت نے اپنے حکم میں جگیندر کمار کے معاملے کا بھی ذکر کیا جس میں سپریم کورٹ نیشنل پولس کمیشن کی تیسری رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ بھارت میں پولس کے ذریعے گرفتاری اور پولس میں کرپشن کے اہم ذرائع میں سے ایک ہے رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے کہ کم و بیش قریب 60 فیصد گرفتاریاں یاتو غیر ضروری ہوتی ہیں یا نا مناسب ہوتی ہیں ۔ اور اس طرح کی نا مناسب پولس کاروائی جیل کے خرچوں پر 43.2فیصد کا بوجھ ڈالتی ہیں نجی آزادی ایک بیش قیمت بنیادی حق ہے اور بہت ہی انتہا ہونے پر ہی اس میں کٹوتی ہونی چاہئے عدالت نے کہا خاص حقائق اور خاص معاملے کے حالات کے مطابق کہ ملزم کی گرفتاری ہونی چاہئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!