کونسلر -افسرلورڈ کی طرح زندگی جی رہے ہیں ،ملازمین کو تنخواہ تک نہیں !
راجدھانی میں میونسپل کارپوریش کے ڈاکٹروں اور نرسوں و دیگر ہیلتھ ملازمین ، ٹیچروں اور صفائی ملازمین کو ریگولیر طور پر تنخواہ نا دئیے جانے پر دہلی ہائی کورٹ نے جمع کو بڑا سخت رخ اپنایا ۔عدالت کا کہنا تھا کہ میونسپل کونسلر سینئر افسران لورڈ کی طرح زندگی جی رہے ہیں لیکن ڈاکٹروں ، نرسوں ،ہیلتھ ملازمین اور ٹیچروں و صفائی ملازمین کو تنخواہ تک نہیں دی جارہی ہے ۔جسٹس وپن سانگھی ار ریکھا پلی کی بنچ نے کہا ان کی منشاءلورڈ کی طرح جی رہے کونسلروں و سینئر افسران سمیت تینوں کارپوریشنوں مین سبھی غیر ضروری اور فضولی خرچوں پر روک لگانے کی ہے ۔تاکہ کورونا کے علاج میں لگے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کو تنخواہ و پنشن کی ادائیگی کی جا سکے ۔عدالت نے یہ رائے زنی کرتے ہوئے تینوں کارپوریشنوں کو یہ کہتے ہوئے سینئر افسران کے اخراجات کی تفصیل پیش کرنے کی ہدایت دی ہے ۔عدالت کا کہنا ہے کہ صفائی کرم چاری اور ہیلتھ ملازمین جو کام کررہے ہیں ان کو دیگر خرچوں کے مقابلے زیادہ ترجیح ملنی چاہیے ۔عدالت نے دہلی سرکار کے ذریعے کارپوریشنوں کو دئیے پیسہ میں سے قرض رقم کٹوتی کرنے کو بھی نامنظور کر دیا ۔اور کہا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی قرض ادائیگی اور بینکوں اور مالی اداروں کے کھاتوں کو فی الحال چلانے پر روک لگا دی ہے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ راجاو¿ں جیسی زندگی بسر کررہے لوگوں کو جب تک تکلیف نہیں ہوگی تب تک حالات نہیں بدلیں گے ۔جن ملازمین کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے ان کے بھی تو پریوار ہیں جس وجہ سے ان پر کئی ذمہ داریاں ہیں ذرا ان کی تکلیف کو بھی سمجھیں کچھ لوگ موج کریں اور صرف تھرڈ اور فورتھ کلاس کے ملازم تکلیف کیوں اٹھائیں ۔عدالت نے لون کی رقم سے تنخواہ دینے کے دہلی سرکار کے فیصلے پر بھی اعتراض جتایا سرکار نے کہا تھا کہ کارپوریشنیں جو سرکار نے قرض لیا ہے اس سے تنخواہ دے سکتے ہیں کیوں کہ ابھی اس کے پاس بھی تنخواہ دینے کے لئے کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور فنڈ کی بھی کمی ہے اس پر بنچ نے کہا کہ فنڈکی کمی تنخواہ نا دینے کا بہانہ نہیں ہو سکتا ۔عدالت نے 21جنوری تک سرکار سے جواب مانگا ہے اور کہا ہے کہ تنخواہ دینے کے لئے کیا سوچا ہے ؟ بتادیں کہ ہائی کورٹ میں کئی عرضیاں داخل ہیں جن میں تنخواہ کی مانگ کی گئی ہے ۔تینوں ہی کارپوریشنوں میں کئی مہینہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے اور اس کے چلتے کئی بار ہڑتال بھی ہوچکی ہے ۔اور اس بار پھر کچھ ملازمین ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں