مذہب کے سبب کسی کو بھی ترقی میں پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا!

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی صدی تقریبات کو وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کرکے ایک مثبت پیغام دیا ہے ایک طرح سے انہوں نے دیش کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ دیش کی مین اسٹریم سے اپنے آپ کو جوڑیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تعلیم اور فروغ اور پبلی سٹی میں اے ایم یو نے بہترین تعاون دیا ہے ۔ یہ یونیورسٹی بھارت کی بیش قیمت وراثت ہے یہاں سے تعلیم پا کر نکلے تمام لوگ دنیا بھر کے ملکوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ اور اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں آگے کہا سرکار کا منتر سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے منتر پر کام کر رہی ہے ۔انہوں نے کثیر تہذیبی وراثت کو دیش کی طاقت بتایا انہوں نے اس تقریب کے دوران ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا انہوں نے یونیورسٹی کے بانی سر سید کے اس قول کو دوہرایا کہ اپنے دیش کے بارے میں جو شخص فکر کرتا ہے ،اس کا پہلا سب سے اہم ترین فرض یہ ہے کہ وہ ذات ،نسل یا مذہب کا ذکر کئے بنا سبھی لوگوں کے بھلائی کے لئے کام کرے۔وزیر اعظم نے بغیر کسی امتیا زکے عوام کو فائدہ پہونچانے والے سرکاری اسکیموں کی بھی مثال دی انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیش کے وسائل ہر شہری کےلئے ہیں اور ان کا سبھی کو فائدہ ملنا چاہئے ہماری سرکار اسی نظریہ کے ساتھ کام کر رہی ہے وزیر اعظم نے اے ایم یو کے سو سالہ سفر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ یقین کرنے کےلئے متحد ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے اے ایم یو کمپلیکش میں ایک بھارت ،سریشٹھ بھارت کے جذبہ دنوں دن مضبوط ہو اورترقی میں مذہبی بنیاد پر کسی کو محروم نہیں ہونا چاہئے حقیقت میں اے ایم یو کا قیام کی بنیاد ہی ترقی پسند نظریہ رہی ہے اور اقلیتی ادارہ ہونے کے باوجود اس نے ذات اور مذہب کے بنیاد پر طلبہ کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا یہ دیش کے ان چنندہ مرکزی اداروں میں سے ایک ہے جہاں توقع سے کم فیس میں عمدہ تعلیم دستیاب ہے وزیر اعظم نے لوگوں کو گمراہ کن پروپیگنڈے سے بھی ہوشیار رہنے اور دل میں قومی مفادات کو بالاتر ماننے کی اپیل کی ۔سیاست انتظار کرسکتی ہے لیکن سماج نہیں، اسی طرح غریب چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ بھی انتظار نہیں کرسکتا ہم وقت برباد نہیں کرسکتے ہمیں آتما نربھر بھارت کی تعمیر کرنے کےلئے مل کر کام کرنا چاہئے وزیر اعظم نے کورونا وبا کے دوران اے ایم یو کے ذریعے سماج کو دیئے گئے بیش قیمت تعاوک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو نے ہزاروں لوگوں کے مفت ٹیسٹ کئے اور آئسلویشن وارڈ بنائے ،بلیڈ بینک بنائے اور پی ایم کیئر فنڈ میں بڑی رقم کا عطیہ دیا جو اس یونیورسٹی کی سماج کے طئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے ۔سو برسوں میں اے ایم یو نے دنیا کے بہت سے ملکوں کے ساتھ بھارت کے رشتوں کو مضبوط بنانے کےلئے بھی کام کیا انہوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی میں اردو ،عربی ،فارسی ،سنسکرت و اسلامی ادب پر کی گئی ریسرچ ساری اسلامک دنیا کے ایک ساتھ بھارت کے ساتھ ثقافتی رشتوں کو نئی طاقت فراہم کی سر سید احمد نے جب اس ادارے کا قائم کو تو ان کے تصور میں آکس فوڈ ،کیمبریج جیسی یونیورسٹی کا تعلیمی میعار تھا سو سال بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اے ایم یو آنے والے وقت میں ایسی ہی کسوٹی پر کھرا اترے گی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!