بہار میں مسلمانوں کی زمینی حقیقت!
چناو¿ میں ووٹ بینک کی سیاستاقلیتوں کی خوش آمدی اور ذات پات اور فرقہ وارانہ تقسیم جیسے الفاظ اکثر سننے کو ملتے ہیں اس لئے ہم بہار کے مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہے ۔ اس بارے میں نظر ڈالتے ہیں بہار اسمبلی میں 243اسمبلی سیٹیں ہیں ۔ ان میں سے 203اوپن جمرے کے ہیں جب کہ 38سیٹیں ایس سی ، اور ایس ٹی کے لئے محفوظ ہیں 2011کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 16.87فیصد ہے جو کشن گنج کٹیھار ارریہ ،پرنیہ، میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ان میں 35فیصد آبادی ہے تو کہیں مسلمانوں کی 75فیصد آبادی ہے یہ 24اسمبلی سیٹوں میں آتے ہیں دربنگہ اور سیتا مڑی چمپارن میں بھی مسلم آبادی 21سے23فیصد ہے ۔ جو 27اسمبلی سیٹوں پر فیصلہ کن ہیں ۔ ایسے ہی مشرقی چمپارن بھاگل پور مدھوبنی اور سیوان میں بھی مسلم آبادی 19فیصد ہے جو 37اسمبلی سیٹوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ اس لئے 243میںسے 88اسمبلی سیٹوں پر مسلم فرقہ فیصلہ کن پوزیشن میں ہے ۔ بہار آفس اور ایشین دیولپمینٹ کی 2017میں رپورٹ کے مطابق بہار میں مسلمانوں کی ایک جگہ آبادی نہیں ہے اور زیادہ تر لوگوں میں تعلیم کی کمی اور دیگر سماجی اور مالی پریشانی میں مبتلا ہیں۔ آج بھی کئی ضلعوں میں فی شخص آمدنی 10ہزار 75روپئے ہے ۔ جب کہ اس کے بر عکس ان بارہ ضلعوں میں فی شخص آمدنی16ہزار 534روپئے ہے جہاں مسلمان کی آبادی کم ہے ۔ مسلمانوں میں تعلیمی شرح 56.3فیصد تھی جب کہ سبھی مذاہب کے لوگوں کے لئے 61.7فیصد تھی اس لئے مسلمانوں اور دیگر فرقوں کے لوگوں میں تعلمی خواندگی کا 5.5فیصد کا فرق ہے ۔ ایسے ہی ایک ادارے سینٹر فار مانیٹرنگ دا انڈین ایکونمی کے ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق بہار میں بے روز گاری قومی سطح پر 23.5فیصد سے زیادہ تھی جو 31.2فیصد سے بڑھ گئی ہے ۔ اور اس کی وجہ لاک ڈاو¿ن ہوسکتی ہے بہار ریاست میں اقلیتی کمیشن کے ذریعے 2001میں بہار کی مسلم سماجی اور اقتصادی پر مببی رپورٹ میں کہا گیا ہے اس میں صاف کہا گیا ہے کہ بہار میں سب سے زیادہ غریبی میں مسلما ن دبے ہوئے ہیں ۔ زیادہ تر ایسے پسماندہ علاقے ہیں جہاں لوگ روز گار میں کم نوکریوں میں لگے ہوئے ہیں جہاں وسائل کے محدود استعمال کے سبب آمدنی پوزیشن خراب ہے ۔ مسلمانوں کی مالی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر ہو اس پر سبھی سیاسی پارٹیوں کو توجہ دینی ہوگی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں