خود بھلا نہیں کرسکتے دوسروں کو دینے کو تیار نہیں !

ناتھ ایم سی ڈی اسپتالوں اور دوسری طبی خدمات کو لیکر سیاست گرما گئی ہے ایم سی ڈی کے پانچ بڑے اسپتال چھ میٹرنٹی ہوم اور 59میٹرنٹی اور چائلڈ کیئر سینٹر چلانے کے لئے ہر سال ملازمین کو تنخواہ ،دوائیاں اور طبی سازوسامان کی خریداری کا بوجھ قریب 650کروڑ روپئے ہے لیکن ایم سی ڈی کے پاس نا تو ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے ہیں اور نہ ہی سازوسامان کی خرید کے لئے پیسہ ہے ۔ آج تنخوہ کو لیکر ایم سی ڈی کے اسپتالوں کے ملازم ڈاکٹر اور نرس کئی دنوں سے ہڑتال پر ہیں اور مظاہرے کر رہے ہیں ۔ جبکہ دہلی سرکار نے کچھ دن پہلے ان سبھی اسپتالوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی پیش کش کی تھی ۔ نارتھ ایم سی ڈی کے افسر کے مطابق مارچ 2018میں ایم سی ڈی نے ہیلتھ سرویسز کو دہلی سرکار کو ٹرانسفر کرنے کے لئے ایک پرستاو¿پاس کیا تھا لیکن ایم سی ڈی کی قائمہ کمیٹی نے اس کو پوری طرح مسترد کردیا اس کے بعد کوئی اس مسئلے پر غور نہیں کیا گیا ۔ سینئر افسر کے مطابق تمام اسپتالوں اور میٹرنٹی ہوم وغیرہ کو چلانے کے لئے ملازمین کی تنخواہ کا بوجھ 450کروڑ سے 550کروڑ روپئے ہے۔ اوراس کے علاوہ دوائیاں اور طبی سازوسامان کا خرید ملاکر تقریبا 650کروڑ روپئے کرنا پڑتا ہے ۔ ایم سی ڈی کے طبی خدمات سے سالانہ 52لاکھ مریض فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ سیوائیں ایم سی ڈی سے دہلی سرکار کو منتقل ہوں گی تو لوگوں کو اچھی ہیلتھ سیوائیں مل سکیں گی لیکن قائمہ کمیٹی نے اس تجویز کو مسترد کردیا ۔ عام آدمی پارٹی نے بھی سوال کیا اخر ایم سی ڈی اپنے اسپتالوں کو کیجریوال سرکار کو کیوں نہیں سونپ رہی ہے۔ میئر جے پرکاش نے مرکزی وزیر مملکت مالیات انوراگ ٹھاکر سے ملکر ایم سی ڈی کی مالی حالت کو سدھارنے کے لئے کم سے کم 2ہزار کروڑ روپئے کاقرض مانگا ہے ۔ ان کی دلیل تھی کہ ایم سی ڈی دہلی میں سب سے بڑا بلدیاتی ادارہ ہے اس میں 50ہزار سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہیں ان کو پچھلے چار مہینے سے تنخواہ نہیں دی جا سکی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!