ملک سے بغاوت قانون پر عدالت کا نظریہ

سی اے اے ،این آر سی کے خلاف آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کی ریلی میں گزشتہ جمعرات کو اس وقت ہنگامہ ہوا جب ایک خاتون نے اسٹیج پر پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگائے اس لڑکی کا نام امولیہ بتایا جا رہا ہے اس کے بعد اس لڑکی کو زبردستی اسٹیج سے اتار دیا گیا ۔اس پر ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج ہو گیا ہے ۔اور اس کو چودہ دن کے لئے جیل بھیج دی گیا ہے وہیں اویسی نے کہا وہ پاکستان زندہ آبا د کے نعروں کی حمایت نہیں کرتے پولیس نے اس لڑکی کے خلا ف آئی پی سی کی دفعہ 124اے کے تحت ملک بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے ۔اس سے ایک بار پھر یہ معاملہ بحث میں آجانا فطری ہی ہے ۔پچھلے دنوں حکومت نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ تین سالوں میں الگ الگ ریاستوں میں 313لوگوں پر بغاوت کے الزام میں کارروائی کی گئی ہے ۔شاہین باغ میں جارحانہ بیان دینے کے لئے شرجیل امام کی حمایت میں نعرہ لگانے والی ایک طالبہ پر بھی بغاوت کا کیس درج کر لیا ہے ۔بغاوت کا معاملہ شروع سے ہی تنازعوں میں رہا ہے ۔چا ر سال پہلے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کر کے اس قانون پر سوال اُٹھائے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت اس کا بے جا استعمال کر رہی ہے ۔اور آئی پی سی کی دفعہ 124اے کے تحت ملک کی بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے ۔سپریم کورٹ نے 1962میں کیدار ناتھ بنام بہار ریاست کے معاملے میں فیصلہ دے رکھا ہے اس کی تعمیل کی جانی چاہیے اور اس کو لے کر سرکار کو حکم دینا چاہیے عرضی میں مہاتما گاندھی کا بھی ذکر کیا گیا کہا گیا کہ جب انہیں ملک سے بغاوت کا ملزم بنایا گیا تھا تب مہاتما گاندھی نے کہا تھا یہ قانون لوگوں کی آواز دبانے کے لئے بنایا گیا ۔اگر کوئی شخص بھارت سرکار کے خلاف لکھ کر بول کر ،یا کسی بھی ذریعہ سے اظہار رائے کے ذریعہ احتجاج کرتا ہے یا فرقوں کے درمیان نفرت کے بیج بوتا ہے ایس کوشش کرتا ہے تو ملک سے بغاوت کا کیس بنے گا ۔اس میں زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے ۔سپریم کورٹ کے وکیل ایم ایل لوہاٹی بتاتے ہیں کہ آرٹیکل 19 (1)(A)کے تحت دیش کے ہر شہری کو اپنا نظریہ رکھنے و ظاہر کرنے کی آزاد ی ہے لیکن یہ آئینی حق مکمل نہیں ہے بلکہ اس پر روک واجب ہے آرٹیکل 19(2)کے تحت واجب روک کی بات ہے ۔واجب دائرے میں ویسے بیان ہیں جو کسی کی ہتھک عزت کرتے ہوں یا جس سے دیش میں نفرت یا تشدد پھیلے یا تشدد پھیلنے کا خطرہ ہے تو معاملہ ملک سے بغاوت کابن جاتا ہے ۔اظہار رائے کی آزادی ایک طے حد ہے جے این یو میں نعرے بازی کے معاملے میں کنہیا کمار پر ملک سے بغاوت کیس میں چارج شیٹ تو داخل ہے لیکن دہلی سرکار اجازت نہیں دے رہی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟