حیدرآبادآبروریزی فیصلہ آن دی اسپاٹ ہوا

جمعہ کی صبح جب میں سو کر اُٹھا تو خبر دیکھی کہ صبح اندھیرے میں حیدرآباد پولس نے سرخیوں میں چھائے ریپ کانڈ کے چاروں ملزمان کو انکاونٹر میں مار گرایا تو میرا دل میں پہلا رد عمل تھا شاباش،حیدرآباد پولس اپنے نہ صرف مہیلا متاثرہ کی آتما کو شانتی دی بلکہ پورے دیش میں آبروریزیوں کو سخت پیغام دیا ،کہ اب آپ کو اپنی حیوانگی کا فورا نتیجہ ملے گا ۔پولس نے چاروں ملزمان کو بھاگتے وقت ہی اُسی جگہ مار گرایا جہاں انہوںنے ویٹنری ڈاکٹر کے ساتھ درندگی کی تھی ،تلنگانہ پولس کے اے ڈی جی لاءاینڈ آرڈر نے بتایا کہ صبح تین بجے جب پولس والے چاروں ملزمان کو کرائم سین کی جانکاری لینے کے لے موقعہ واردات پر لے گئی تو پولس کے ہاتھوں سے ریوارلور چھین کر بھاگنے لگے تبھی پولس نے انکاﺅنٹر کر چاروں ملزمان کو مار گرایا تلنگانہ پولس کو لاکھ لاکھ بندھائی ۔اب ہمارے سامنے دہلی کا نربھیہ کیس بھی ہے جس میں سزا ہوئے سات سال گزر چکے ہیں اور آج تک قانونی داﺅں پیچ کے سبب پھانسی نہیں ہو پائی ۔ریررسٹ آف ریر کرائم کرنے والوں کا یہی حشر ہونا چاہیے دنیا کے کئی ملکوں میں فورا موت کی سزا پر عمل ہو جاتا ہے نہ کوئی اپیل نہ دلیل نہ وکیل ہاتھ کے ہاتھ معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے ۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اترپردیش کے خطرناک گینگ ریپ کیس میں ایک ملزم کو ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بیچاری اور بد قسمت عورت کو زندہ جلا دیا اور سنیچر کو اس کی موت ہو گئی ۔ایسے گھناونے جرائم پیشہ کو ہائی کورٹ پتہ نہیں ضمانت پر کیوں چھوڑ دیتی ہے تاکہ وہ جیل سے نکلتے ہی کوئی نہ کوئی گھناونا جرم کر ڈالیں ؟میں یہ بھی نہیں جانتا ہوں کہ اس کاﺅنٹر پر کئی طرح کے سوال اُٹھے بھی ہیں اور اُٹھیں گے بھی اور ملزمان کے انسانی حقوق کی بات اُٹھے گی پولس حراست میں انکاﺅنٹر پر بھی سوال اُٹھیں گے پولس کے ذریعہ انکاﺅنٹر کیسے ہوا اس پر بھی سوال اُٹھیں گے پولس کو اس طرح کے کھلے عام انکاﺅنٹر کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا اس کا بے جا استعمال بھی ہو سکتا ہے اگر انسانی پہلو کی نظر سے دیکھیں تو اسے متوفع کی آتما کو شانتی ملے گی اور اس کے خاندان والے چین کی سانس لیں گے ۔عصمتدری کرنے والوں کی انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو متاثرہ کے انسانی حقوق کی بھی فکر ہونی چاہیے جس پلیہ کے نیچے یہ انکاﺅنٹر ہوا اس کے اوپر سے گزرنے والی بسوں میں جا رہی عورتوں کی خوشی اور مسکرانے کی آوازیں ظاہر کرتی ہیں کہ عورتیں اس انکاﺅنٹر سے خوش ہیں ڈر اس کا بھی ہے کہ پولس بربریت کے لئے یہ انکاﺅنٹر راستے چوڑے کر رہا ہے پولس کل کو کسی کوبھی جرائم پیشہ بتا کر مڈبھیڑ میں مار دے گی اور لوگ تالیاں بجاتے رہیں گے ہمارا زور نیائے سسٹم کو مضبوط اور شفاف بنانے پر بھی ہونا چاہیے اور انصاف ملے اور جلدی ملے اس کے لے آواز اُٹھانی چاہیے ۔نہ کہ پولس مڈبھیڑوں میں ملزموں اور جرائم پیشہ کو مارنے کی خوشی منانی چاہیے معاملہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قانونی کاروائی پر بھروسے کا ہے ۔بہر حال متاثرہ کو زندہ جلانے والوں کو ہر شخص چاہتا ہے کہ سخت سے سخت سزا ملے اور خلیجی ملکوں کی طرح چوراہے پر شار عام سولی پر لٹکا دیا جانا چاہیے ۔لوگ بھی اس کے ہماہتی ہیں اس سے ان جرائم پیشہ میں خوف پیدا ہو لیکن عوامی غصے کے پیش نظر پولس نے انکاﺅنٹر کر کے ایک نئی نظیر شروع کر دی اور یہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے ضروت تو اس بات کی ہے کہ فاسٹ ٹریک عدالتوں کے ذریعہ گھناونے جرائم کے ملزما ن کو قصوروار قرار دے کر عدالتی حساب سے سزا دی جائے اس سے اس طرح کے شاطر درندوں کو موت ملے لیکن عدالت سے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟