شہریت ترمیمی بل کی چوطرفہ مخالفت

لوک سبھا میں پہلے ہی پاس ہونے کے بعد بدھوار کی رات شہریت ترمیمی بل 2019راجیہ سبھا میں 125-105ووٹوں سے پاس ہو گیا بے شک دونوں ایوانوں سے پاس ہو گیا ہو لیکن اس کا پارلیمنٹ میں اور اس کے باہر جم کر مخالفت ہو رہی ہے نمبروں کی طاقت سے پاس ہوئے اس بل کو زمینی حقیقت بننے سے پہلے لگتا ہے کہ مودی سرکار کو اس پر عمل کے لئے لمبا سفر طے کرنا ہوگا ۔صدر جمہوریہ کی جانب سے منظور ہونے سے پہلے ہی اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی تیاری ہو چکی ہے ،بین الا اقوامی مذہبی آزادی پر امریکہ سے فیڈرل کمیشن نے کہا کہ شہریت ترمیمی بل غلط سمت میں بڑھایا گیا ہے اور یہ خطرناک قدم ہے اگر یہ بھارت کے پارلیمنٹ میں پاس ہوتا ہے تو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور کچھ دیگر ہندوستانی لیڈروں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے ۔اِدھر پاکستان نے بھی بل کو ایک دوررس نقصان اور جانبدارانہ بتایا ۔اور اسے نئی دہلی کا پڑوسی ملکوں کے معاملوں میں دخل کے لئے افسوسناک ارادہ بتایا جبکہ بھارت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ۔شمال مشرقی ریاستوں میں اس بل کی سب سے زیادہ اورمنظم طریقے پر احتجاج ہو رہا ہے ۔ان ریاستوں کی اصل جنتا نہیں چاہتی کہ وہاں باہر سے آئے کسی بھی شخص کو شہریت ملے بل سے باہر رہے گئے صرف مسلمانوں کو ہی شہریت دینے کی مخالفت کرنا ہے نارتھ ایسٹ میں تشویش یہ ہے کہ وہاں باہر سے آکر بسے ہندو و دیگر پانچ اقلیتی طبقوں کو مستقل شہریت مل جائے گی ۔حالانکہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں وزیر داخلہ امت شاہ نے موثر ڈھنگ سے سب کو اطمینان دلانے کی کوشش کی لیکن ایسا لگتا ہے کہ نارتھ ایسٹ انڈیا تک ان کی بات کا زیادہ اثر نہیں ہوا اور نارتھ ایسٹ جل رہا ہے ۔ایسا احتجاج پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے مخالفت میں کئی دلیلیں پیش کیں لیکن مودی سرکار نے نمبروں کی طاقت پر اس بل کو پاس کروا لیا ۔نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں ناراضگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سرکار کو جموں وکشمیر سے فوج کی ٹکڑی کو نکال کر ان ریاستوں میں امن بنائے رکھنے کے لئے بھیجنا پڑ رہا ہے ۔مرکزی سرکار کے لئے ایک بڑی چنوتی یہ بھی ہے کہ نارتھ ایسٹ ریاستوں میں امن چین بحال کرئے اس بل کی جو مخالفت ہو رہی ہے اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ ایک بار پھر واضح ہو گیا ہے کہ دنیا بھارت کو ایک سیکولر اور اصلاح پسند ملک کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے میں نے امریکہ اور پاکستان میں اس بل کے بارے میں رد عمل بتایا ہے لیکن یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ امید ہے کہ بھارت اپنے اعلیٰ اقدار کو برقرار رکھے گا ۔اور دیش کے اندر اب تو دانشوروں ،سائنسدانوں اور آرٹسٹوں نے بھی اس بل کی مخالفت شروع کر دی ہے ۔بل کے موجودہ خاکے کو واپس لینے کی مانگ کو لے کر بڑی تعداد میں تمام طبقوںنے ایک میورنڈم پر دستخط کئے ہیں ۔اس میں کہا گیا ہے کہ پریشان حال شہریوں کے ناطے ہم اپنی سطح پر بیان جاری کر رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی بل 2019کو ایوان میں رکھے جانے کی خبروں کے تیں اپنی مایوسی ظاہر کر سکیں ۔کئی مصنفوں اور ماہر تعلیم اور سابق جج صاحبان اور سابق افسروں نے بھی سرکار سے بل واپس لینے کی اپیل کرتے ہوئے اس کو امتیازی بتایا اور تباہ کن اور آئین میں تشریش سیکولر اور اصولوں کے خلاف بتایا ۔ان میں مورخ رومیلا تھاپہ ،مصنف امیتابھ گھوش ،اداکارہ نندیتا داس ،اور فلم ساز اپرنا سین ،اور تجزیہ نگا ریوگیندر یادو تستا سیتل واڑ ،وغیرہ شامل ہیں ۔بے شک تعداد کی طاقت پر سرکار نے بل تو پاس کروا لیا ہے لیکن اسے زمین پر اتارنا اتنا آسان شاید نہ ہو ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟