دررناک:تابوت کی طرح بنی یہ عمارت لاکشیہ گرہ

راجدھانی دہلی کی اناج منڈی میں ایک چار منزلہ عمارت میں آگ لگنے سے 43لوگوں کی موت انتہائی تکلیف دہ حادثہ میں ہوئی یہ حادثہ ایک مرتبہ پھر یہ دکھاتا ہے کہ دہلی میں کئی عمارتیں تابوت کی طرح لاکشیہ گرہ بنی ہوئی ہیں ۔چھت کا بند دروازہ ،پیچھے کا زینہ بند پوری عمارت میں پلاسٹک کے سامان کا ڈھیر اور گنجان گلی کے چلتے اناج منڈی کی یہ عمارت لاکشیہ گرہ بن گئی ،تنگ گلیوں میں بجلی کے تاروں کے مکڑ جال ہونے کے سبب اناج منڈی کے اس کارخانے کو موت کے چیمبر میں تبدیل کر دیا تنگ عمارت ہونے کی وجہ سے ہوا کا گزر اور آگ سے بچاﺅ کے انتظام نہ ہونے سے حالت یہ ہوئی مگر آگ میں پھنسے لوگوں کو بچانے فائر کرمچاری پہنچے تو ضرور لیکن انہیں راستہ نہیں مل پایا ۔بڑی مشقت کے بعد فائر ملازمین کو گرل کاٹ کر عمارت میں گھسنا پڑا تب تک کئی لوگوں کا دم گھٹ چکا تھا تحقیقات سے پتہ چلا کہ محکمہ فائر سے این او سی سے لے کر فیکٹری لائسئنس تک بے ضابطہ کی پائی گئی ۔اس علاقہ میں پہلے اناج منڈی تھی لیکن وقت کے ساتھ کاروبار بند ہوگیا چھ سو مربہ گز زمین کے پلاٹ پر بنی عمارت کے تین پارٹنر ہیں چاروں منزلوں پر سو سے زیادہ لوگ رہتے تھے پوری عمارت میں پلاسٹک کا سامان پھیلا ہوا تھا سو سے زیادہ لوگوں کے آنے جانے کے لئے صرف چار فٹ چوڑی سیڑھی تھی عمارت کے دوسرے حصے میں موجود سیڑھی پر سامان کا ڈھیر لگا کر بند کر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے سیڑھی کا استعمال نہیں ہوتا تھا آگ لگنے پر لوگ دوسری سیڑھی کا استعمال نہیں کر پائے پہلی سیڑھی میں دھواں بھرنے سے لوگ اس کا بھی استعمال نہیں کر پائے پتہ یہ چلتا ہے کہ رہائشی علاقہ میں چار منزلہ اس عمارت میں نا جائز طریقہ سے فیکٹریاں چل رہی تھیں کام کرنے والے مزدور رات کو انہیں کال کوٹھریوں میں سو جاتے تھے ۔جہاں نہ تو ضروری اُٹھ بیٹھنے کا انتظام تھا اور نہ ہی ہوا آنے جانے کا انتظام ایسی حالت میں لا پرواہی کی وجہ سے آگ آچانک اس وقت پھیلی جب لوگ گہری نید میں تھے ۔ساتھ ہی بلڈنگ میں پانی کا ضروری انتظام نہ ہونے کے سبب آگ بجھانے کے لئے آئی فائر گاڑیوں کو کام کرنے میں بہت مشکل سے دو چار ہونا پڑا ان فائر مینوں کی ہمت اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرکے کئی لوگوں کی جان بچانے کا کام کیا ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے صرف اناج منڈی کا ہی یہ حال نہیں ہے دہلی میں کافی علاقہ ہیں جہاں کم و بیش یہی حال ہے ۔ایسے حادثوں کے کئی سبب ہیں ۔ایک تو اسمارٹ سٹی کے نعرے اور شہروں کی کایا کلب سے متعلق جیسی اہم ترین اسکمیوں کے باوجود ضمنی سطح پر بہت کم کا م ہونا اور سٹی انتظامیہ کا اپنی ذمہ داریوں سے منھ پھیر لینا ایسے میں غیر قانونی کام کرنے کی ہمت بڑھتی ہے جس کا شکار زیادہ تر گاﺅں سے آئے ہوئے غریب اور بے سہارا لوگ بنتے ہیں ۔جو پہلے تو ان کال کوٹھریوں میں گھنٹوں کام کرنے اور اپنی اپنی صحت خطرے میں ڈالتے ہیں اور کئی ٹریجڈیاں ہوئیں تو اس کے شکار ہوتے ہیں اس کے باوجود راجدھانی کے رہائشی علاقہ میں سیکورٹی پیمانوں سے کھلواڑ کر ایک چار منزلہ عمارت کو غیر قانونی طریقہ سے فیکٹری میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ایسی حالت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ افسران اور نیتا اپنی ذمہ داری پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سرکاریں سیاسی فائدے نقصان کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کرتی ہیں ۔پھر دہلی کے باہر سارے علاقے ہیں جو غیر منظور کالونیوں کی شکل میں آباد تھے سرکار نے انہیں غیر منظور قرار دے دیا اس سے وہاں بجلی پانی ،سڑک سیور،کا انتظام تو ہو گیا لیکن ان کی بناوٹ اس قدر ٹیڑھی ہے کہ وہاں فائر کی گاڑیاں پہنچنے میں بھی مشکل ہوتی ہے یہاں بڑے پیمانے پر غیر قانونی طور پر کارخانے چل رہے ہیں جنہیں یہ مان کر چلنے دیا جاتا ہے کہ وہ نہ تو آلودگی پھیلاتے ہیں اور نہ ہی آگ لگنے پر بچاﺅ کر سکتے ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ علاقہ میں فیکٹری محض دو سو گز رقبے میں بنی ہوئی ہے ان میں نہ تو فائر سیفٹی سے متعلق کوئی سسٹم کو لے کر سوال اُٹھ رہا ہے کہ اس آگ اور موتوں کا ذمہ دار کون ہے ؟دہلی سرکار یا ایم سی ڈی یا انتظامیہ ؟بے روک ٹوک چل رہی ان فیکٹریوں کا کون ذمہ دار ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ہر حادثے کے بعد ذمہ داری ڈیپارٹمینٹ ایک دوسرے پر ڈال کر پلہ جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟