مہاراشٹر میں صدر راج بھنو ر میں

مہاراشٹر میں اسمبلی چناﺅ کے نتیجے آنے کے بعد 19دنوں تک چلے سیاسی ڈرامے کا خاتمہ ریاست میں صدر راج لگانے سے ہوا سرکار بنانے کا دعوی کر رہی این سی پی ،کانگریس اور شینا نے آخری وقت تک شرائط پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا ،این سی پی نے منگل کے روز جب صبح گورنر سے سرکار بنانے کے لئے تین دن کا وقت مانگا تو انہوںنے اس کی اپیل کو ٹھکرا دیا ،اور ساتھ ہی ریاست میں صدر راج کے نفاذ کی سفارش کر دی۔بھاجپا اور شیو سینا کے درمیان نئی سرکار کی تشکیل کو لے کر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو پانے سے صاف ہو گیا تھا کہ یہ ریاست صدر راج کی جانب بڑھ سکتی ہے ،اور امید بھی یہی تھی کہ شاید این سی پی ،کانگریس ،شیو سینا کی اتحادی سرکار بن جائے ،لیکن ذرائع کے مطابق تینوں پارٹیاں نہ تو کامن منیمم پروگرام اور نہ ہی یہ طے کر پائیں کہ سرکار میں کس پارٹی کے کتنے وزیر وہوں گے حالانکہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے پہلے شیو سینا پھر راشٹر وادی کانگریس پارٹی کو سرکار بنانے کے لے اپنا پیش کرنے کے لئے منگل کی رات ساڑھے آٹھ بجے تک کا وقت دیا تھا لیکن وقت پورا ہونے سے پہلے ہی انہوںنے صدر راج لگانے کی سفارش بھی کر دی اس کے بعد سفارش کو کیبنٹ اور پھر صدر کی منظوری ملنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی ۔مہاراشٹر کے گورنر کے مطابق ریاست میں سرکار کے تشکیل کی تمام قواعد کے بعد بھی سیاسی تعطل برقرار رہا ،اور دعوی کے باوجود شیو سینا حمایت کا خط نہیں دے پائی ۔اس کے علاوہ این سی پی اور کانگریس کے درمیان شش و پنج کی صورتحال بنی رہی اور ممبران کی خرید و فروخت کے الزام سامنے آنے لگے ممکن ہے گورنر نے سرکار کی تشکیل کو لے کر متعلقہ پارٹیوں کے اندر کشمکش کو مستقبل کی سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کا اشارہ مانا لیکن سیاسی حلقوں میں یہ امید تھی کہ بھاجپا کے سرکار بنانے میں ناکام رہنے کے بعد بنتی تصویر میں شیو سینا این سی پی کانگریس ،اتحادکو موقع دیا جائے گا اب یہ سوال اُٹھنا فطری ہے کہ گورنر نے مختلف فریقین کو وقت دینے کے معاملے میں اس طرح کا بے دلیل اور امتیازی رویہ کیوں اختیار کیا ؟خاص طور پر اس وقت جب شیو سینا اور این سی پی اور کانگریس کے لیڈروں کے درمیان آپسی بات چیت فیصلہ کن دور میں تھی ۔اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مہاراشٹر میں ووٹروں نے مینڈیٹ بھاجپا شیو سینا کے حق میں دیا تھا جس کل ملا کر 161سیٹیں بنتی ہیں ۔جن میں بھاجپا 105شیو سینا 56شامل ہیں مگر نتیجے آنے کے بعد شیو سینا نے انصاف اور سیاسی اور جمہوری تقاضوں کو در کنار کر وزیر اعلیٰ کا عہدہ دیا اور کسی دوسرے کو دوسرے نمبر کی پارٹی کے ذریعہ سرکار بنانے کا دعوی کوئی جواز نہیں رکھتا جیسا کہ حال ہی میں کرناٹک میں دیکھا گیا تھا جہاں کم سیٹیں حاصل ہونے کے باوجود جنتا دل ایس اور کانگریس کی اتحادی سرکار میں جنتا دل ایس کے کمار سوامی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا ۔لیکن خیال رہے کہ بھاجپا شیو سینا کے درمیان چناﺅ سے پہلے اتحاد تھا مہاراشٹر کے اس واقعہ نے 2005کے بہار اسمبلی چناﺅ کی بھی یاد دلا دی جب کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملنے پر گورنر بوٹا سنگھ کی سفارش پر صدر راج لگایا گیا تھا ۔اس پر سپریم کورٹ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ منتخب ممبران اسمبلی کو نئی سرکار کی تشکیل کا موقع دئے بنا صدر راج نافذ کرنا غیر آئینی ہے ۔این سی پی نیتا شرد پوار نے صدر راج لگانے پر کہا کہ ہم دوبارہ چناﺅ نہیں چاہتے ابھی کوئی جلدی نہیں ہے سرکار کیسے بنے گی پالیسی کیا ہوگی ؟تب تک کانگریس اور این سی پی کے درمیان معاملہ طے ہو جائے گا ۔وہیں کانگریس کے سینر لیڈر احمد پٹیل کا کہنا تھا کہ صدر راج لگانا جمہوریت اور آئین کا مذاق اُڑانے کی کوشش ہے ،ہمیں دعوت نہ دینا گورنر کی غلطی ہے این سی پی سے بات کئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہیے تھا ،سابق وزیر اعلیٰ اور بھاجپا نیتا دیوندر فڑنویس نے کہا کہ بھاجپا ،شیو سینا اتحاد کو واضح مینڈیٹ ملا اس کے باوجود صدر راج لگنا افسوسناک ہے ۔امید ہے کہ جلد ریاست کو پائیدار حکومت ملے گی بھاجپا سینر لیڈر اور وزیر داخلہ امت شاہ نے صاف کیا کہ ہم نے سبھی کو چھ مہینے کا وقت دے دیا ہے جسے بھی سرکار بنانی ہے وہ اس معیاد میں خانہ پوری کر کے بنا لے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟