اسپیکرس کے آئینی فرائض !

کرناٹک کے دل بدلوﺅں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ریاست کا سیاسی ڈرامہ دلچسپ موڑ لے چکا ہے ۔سپریم کورٹ نے ممبران اسمبلی کو نا اہل قرار دینے کے سابق اسپیکر کے فیصلے کو تو برقرار رکھا لیکن بے معیاد ان ممبران اسمبلی کو چناﺅ لڑنے پر اسپیکر کی روک کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے پابندی ہٹا دی ہے اب وہ پانچ دسمبر کو ہونے والا ضمنی چناﺅ لڑ سکتے ہیں ۔ریاست میں سترہ میں سے پندرہ سیٹوں پر ضمنی چناﺅ ہو رہے ہیں کیونکہ دو سیٹیں مسکیں اور راجیشوری سے متعلق عرضیاں کرناٹک ہائی کورٹ میں التوا میں ہیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے ریاست کی حکمراں پارٹی بی جے پی کی پریشانی ضرور بڑھنے والی ہے دراصل ڈرامائی موڑ کے تحت کچھ مہینے پہلے اپنے ہی ممبران اسمبلی کے ذریعہ پالا بدلنے سے کانگریس اور جے ڈی ایس کی اتحادی حکومت گر گئی تھی اور وزیر اعلیٰ اسمبلی میں اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے ،اس کے بعد وزیر اعلیٰ کمار سوامی نے استعفی دے دیا تھا ۔اسپیکر نے سترہ ممبران اسمبلی کو نا اہل قرار دیا تو بی جے پی نے آسانی سے سرکار بنا لی ۔ہوا یوں کہ ممبران اسمبلی کو نا اہل قرار دینے کے بعد 24ممبری اسمبلی میں ممبروں کی تعداد گھٹ کر 207رہ گئی جبکہ حکومت کے لئے 104ممبر درکار ہوتے ہیں ۔بھاجپا کے پاس 106ممبروں کی حمایت تھی جس میں اس کے صرف 105اور ایک دوسرے ممبر اس کا ساتھ تھا اس لئے سرکار بنانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ کرناٹک کی موجودہ اسمبلی کی پوری میعاد یعنی 2023تک ان ممبران کے چناﺅ لڑنے پر روک کے اسپیکر کے حکم کو اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اسپیکر کے پاس اس کا حق نہیں ہے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ نا اہلیت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوبارہ ہونے والے چناﺅ میں لڑنے سے نا اہل ممبران کو روکا جائے سپریم کورٹ نے بدھوار کو کہا کہ سیاسی پارٹیوں کی خرید و فروخت اور کرپٹ کلچر میں ملوث ہونے کے علاوہ اسپیکرس بھی غیر جانبدار رہنے کے آئینی فرائض کے خلاف کا م کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔جسٹس ایس وی رمن اور جسٹس سنجیو کھنا اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے کہا کہ اسپیکر سے غیر جانبدار شخص ہونے کی وجہ سے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ ایوان کی کارروائی چلانے اور عرضیوںپر فیصلہ لیتے وقت وہ آزادانہ طریقہ سے کام کریں گے ۔عدالت نے کہا کہ اسپیکر س کو سونپی گئی آئینی ذمہ داری کا ایمانداری سے تعمیل ہو اور انصاف کرتے وقت اس کی سیاسی وابستگی آڑے نہیں آسکتی عدالت نے کہا کہ اسپیکر اپنی سیاسی پارٹی سے خو دکو الگ نہیں کریں گے اور غیر جانبدار اور آزادانہ ہو کر کام کرنے کے جذبے کے مطابق برتاﺅ نہیں کریں گے تو ایسا شخص عوامی اعتماد کے لائق نہیں ہے یہی نہیں اسپیکر کے فیصلے کے خلاف ممبران اسمبلی نے جس طرح سے سپریم کورٹ کا رخ کیا عدالت نے اس کی بھی نکتہ چینی کی لہذا سیاسی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر فیصلے کو کیا جائے عدالت کے اس تبصرے کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں میں آئینی آخلاقیات کی کمی ہے ۔اور حکمراں اور اپوزیشن میں رہنے پر اس کا برتاﺅ میل نہیں کھاتا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟