پانی پت جنگ سے بہت پہلے آئے تھے نانک دیو جی ایودھیا

وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کو بیر پور صاحب میں متھا ٹیکنے کے بعد کرتارپور صاحب گلیارے کا افتتاح کیا اور ادھر اسی دن ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں گرو نانک دیو جی کی یاتر اکے حوالے سے ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر کے وجود کو بابر کی بھارت آمد سے پہلے قیام کرنے کی بات سامنے آئی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے میں 2010میں ہائی کورٹ کے فیصلے کچھ حصے کا ذکر ہے جس میں ہائی کورٹ کے اس وقت کے جج سدھیر اگروال نے ایک گواہ کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرونانک دیو جی نے 1510-11کے دوران ایودھیا جا کر رام جنم بھومی کے درشن کئے تھے یاد رہے یہ وقت بابر کے بھارت پر حملے سے کافی پہلے کا ہے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میںکہا کہ سکھ دھرم کے بانی گرو نانک دیو جی نے ایودھیا یاترا کرکے ہندوو ¿ں کی آستھا اور اعتماد کو پختگی کی تھی اور یہ جگہ بھگوان رام کا جنم استھان ہے عدالت نے کہا ریکارڈ پر لائے گئے جنم سہاروی میں گرونانک دیو جی کے ایودھیا آمد کا ذکر ہے ۔چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی پانچ نفری آئینی بنچ نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ الگ ثبوت ہے کہ متنازع ڈھانچا ہندوو ¿ ں کی آستھا اور اعتماد کی علامت بھگوان رام کا جنم استھا ن ہے بنچ میں شامل جج نے کہا کہ رام جنم بھومی کی صحیح جگہ کی پہچان کرنے کے لئے کوئی صحیح چیز نہیںہے ۔رام جنم بھومی کے درشن کے لئے گرو نانک دیو جی کا ایودھیا جانا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ 1528عیسوی سے پہلے بھی تیرتھ یاتری وہاں جاتے آتے رہے عدالت میں کہا گیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ بابر کے میرباقی نے 1528میں کرائی تھی انہون نے کہا کہ یہ مانا جا سکتاہے کہ بھگوان رام کے جنم استھان سے متعلق جو ہندوں کی آستھا اور بھروسہ ہے وہ بالمیکی رامائن اور سنکد پران سمیت سبھی دھرم گرنتھو اور دیگر دھارمک کتابوں سے جڑی ہوئی ہے انہیں بے بنیاد نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔جج نے کہا کہ کہا گیا ہےکہ 1528عیسوی کی میعاد سے پہلے لکھے گئے ایسے دھارمک گرنتھ قابل قبول ہیں جو رام جنم بھومی کے موجودہ مقام کو بھگوان رام کے جنم استھان کی شکل میں مانتے ہیں جس سے ہندو ¿ں کی آستھا کو مانیتا ملتی ہے ۔جے بابا گرونانک دیو جی ،جے شری رام ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟