کھاتہ داروں کو بینکوں میں اپنا پیسہ غیر محفوظ لگنے لگا

بینکوں میں دھوکہ دھڑی کے معاملے میں اتنی تیزی آئی ہے کہ آئے دن اخباروں میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ آج فلاں بینک میں دھوکہ دھڑی کا معاملہ روشنی میں آیا ہے حال ہی میں سی بی آئی نے کناٹ پلیس میں قائم اورینٹل بینک آف کامرس اور راجیندر پلیس میں واقع آندھرا بینک میں 363.72کروڑ روپئے کے گھوٹالے کے سلسلے میں کرول باغ کے لال سنس جویلرس او ر شری ناتھ رولرس ملز کے سرمایہ کاروں اور گارنٹروں سمیت بینک کے نا معلوم افسران کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ،ذرائع کا کہنا ہے کہ کروڑوں روپئے کے گھوٹالے میں شامل لال سنس جوئیلرس کے تار دبئی کے جڑے ہیں اس معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے ۔ذرائع کے مطابق اورینٹل بینک آف کامرس کے ڈی جی ایم راجیو کمار کی طرف سے سی بی آئی ہیڈ کوارٹر میں درج کرائی گئی شکایت میں کہا گیا تھا کہ کرول باغ ریگر پورہ میں واقع لال سنس جویلرس کے سرمایہ کار سونے کے کاروبار سے وابسطہ ہیں سال 1994میں کمپنی نے مشین سے زیور بنانے شروع کئے بینک کی طرف سے کمپنی کو سول بینکنک کے تحت قرض کے لئے کئی طرح کی سہولیات دی جا رہی تھیں ۔بینک نے کمپنی کو کل 222.96کروڑ روپئے کا قرض دیا تھا جو واپس نہیں لوٹایا ۔سی بی آئی کو جانچ کے دوران پتہ چلا کہ کروڑوں کے اس گھوٹالے میں لال سنس کی دبئی میں کمپنی پاسی جوئیلرس کے درمیان ساٹھ گانٹھ ہے،گھوٹالے میں دونوں کمپنیوں کے سرمایہ کاروں اور نامعلوم بینک کے کام کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔آج ہر شخص اپنے پیسے بینک میں رکھنے سے ڈرا ہوا ہے ۔یہ فطری ہے کہ پورا دیش چاہتا ہے کہ دھوکہ دھڑی پر لگام لگے اور بینک کے ملازمین قانون کے شکنجے میں آئیں ۔سی بی آئی نے حال ہی میں جعلسازی کے معاملے میں ایک ساتھ قریب 175مقامات پر دیش بھر میں چھاپہ مارا تھا جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں جو سبھی معلومات سامنے آئیں ہیں اس میں 2018-19میں جعلسازی کے تقریبا سات ہزار معاملے سامنے آئے ۔اور 72ہزار کروڑ روپئے کا گھپلہ ہوا اے ٹی ایم اور کریڈیٹ کارڈ کے ذریعہ پیسہ نکال لینے سے لے کر سیدھا کھاتے تک سے پیسہ غائب ہو رہا ہے ۔ایسے معاملے روزناہ سننے پڑنے کو ملتے ہیں ۔قرض کے نام پر لیا گیا پیسہ اسکا کیا ہوا پتہ نہیں یہ کام بینک حکام کی ملی بھگت سے ممکن ہے ۔کچھ ایسے معاملے بھی سامنے آئے ہیں بینک کے حکام نے ڈیڈ اکاﺅنٹ سے بھی موٹے پیسے نکال لئے ۔بھارتیہ ریزرو بینک نے قائدہ بنا لیا ہے کہ کسی کھاتے سے دھوکہ دھڑی سے پیسے نکالے ہیں تو متعلقہ بینک اتنا ہی پیسہ جمع کرئے گا ۔لیکن یہ آسان ہے مگر اس کی خانہ پوری میں برسوں لگ جاتے ہیں اور بینکوں کو یہ پیسہ لوٹانے میں کھاتے داروں کو کافی چکر لگانے کے بعد ملتا ہے ۔لیکن زیادہ تر نہیں یہ صورتحال بدلنی چاہیے آج ہر شخص کے لئے اپنا جمع پیسہ بینک میں رکھنا ضروری ہے ان کے پیسے کی حفاظت بینکوں کی ذمہ داری ہے ۔اس لئے سرکار کے سامنے وقت پر سیکورٹی کا جائزہ لینا چاہیے لوگوں میں جو خوف پیدا ہو گیا ہے کہ آج بینکوں میں ان کا پیسہ کھویا تو نہیں یہ ڈر دور ہونا چاہیے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!