بس اب اور نہیں ....!

ایودھیا رام جنم بھومی تنازعہ مغل عہد اور برطانیوی حکومت اور دیش کی آزادی کے بعد بھی دھائیوں تک سلجھ نہیں پایا ،اس دوران بہت کچھ رونما ہوا لیکن سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد آخر کار یہ تنازعہ ختم ہو گیا ،بس اور اب نہیں ۔ایودھیا فیصلے کے ایک طرف جہاں عدالت کے اندر اتفاق رائے تھی وہیں سرکار اور عدلیہ اور آر ایس ایس کا نظریہ بھی ایک ہی لائن پر دکھائی دیا ،الگ الگ الفاظ نے چیف جسٹس رنجن گگوئی ،وزیر اعظم نریندر مودی ،اور آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے صاف صاف کہا کہ تنازعات کو اب پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے کا وقت ہے ظاہری طور پر یہ اشارے سیدھے سیدھے متھرا کاشی سے جڑتے ہیں ،یہ مان کر چلا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں فرقہ وارانہ مذہبی مقامات کے تنازعہ کی گنجائش ختم ہو گئی ہے ۔سنیچر کو فیصلہ پڑھتے وقت چیف جسٹس رنجن گگوئی نے 1991میں پوجا استھل قانون کا بھی ذکر کیا اور یہ بتایا کہ پارلیمنٹ کا یہ قانون واضح کر تا ہے کہ 15اگست 1947کے دن جس پوجا استھل کی (مندر،مسجد)کی پوزیشن تھی اس میں کوئی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے جڑے قانونی مقدمے بھی ختم مانے جائیں گے صرف رام جنم بھومی ،بابری مسجد کو ہی اس سے چھوٹ تھی وہیں آر ایس ایس موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں صاف کیا کہ سنگھ آندولن نہیں کرتا ہے ،رام مندر آندولن میں جڑنا ایک دھارمک مسئلہ تھا ایودھیا فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے انہوںنے متھرا ،بنارس میں مندر کو لے کر بھی اپنی پوزیشن صاف کی ۔ہم بنارس اور متھرا میں مسجد کی جگہ مندر بنانے کی بات کرنے والوں میں شامل نہیں ہوں گے ،دیش کے نام اپنے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت باریکی سے یہ پیغام دیا کہ اب دیش میں کڑاوہٹ کے لئے کوئی جگہ نہیں اتنا ہی نہیں یہ بھی کہا کہ اب نئے بھارت کی تعمیر میں سب کو لگنا ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے اور کرتارپور کوریڈور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن کا سندیش جوڑنے اور جڑنے کا ہے ،اور مل کر جینے کا ہے ۔اب تلخی اور نفرت کو تلانجلی دینے کا وقت ہے نئے بھارت میں خوف ،تلخی اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی اشارہ صاف ہے رام مندر کے ساتھ ہی سب سے بڑے دھارمک تنازعہ سے نمٹنے کے بعد کوئی اور اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا پورے دیش کا مسلم طبقہ بھی رام مندر تعمیر کے فیصلے کو مان چکا ہے ،سادھو سنت سماج کی طرف سے بھلے ہی متھرا اور کاشی جیسے اشو اُٹھائے جا سکتے ہیں لیکن اس سے بھاجپا یا سنگھ سے کھلی حمایت ملے اس کی گنجائش نہیں ہے ۔بھاجپا کے سیاسی چناﺅ منشور میں رام مندر 1991سے شامل تھا ۔لیکن کبھی بھی متھرا اور کاشی کا ذکر نہیں ہوا ۔سنگھ پریوار میں ہی ایم پی میں بھی اس اشو پر خاموشی ہے وہ اپنی پوری توجہ مندر کی تعمیر پر لگانا چاہتے ہیں ۔بس اب اور نہیں دیش کے مفا د میں نہ اب متھرا اور نہ کاشی کی بات ہونی چاہیے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟