لوگوں کی پرواہ نہیں تو آپ کو اقتدار میں رہنے کا بھی حق نہیں!

آلودگی سے فکر مند سپریم کورٹ نے ریاستی سرکاروں کے رویہ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بے حد تلخ لہجے میں کہا کہ اگر لوگوں کی پرواہ نہیں ہے تو آپ کو اقتدار میں رہنے کا بھی حق نہیں ہے ۔جسٹس ارون مشرا اور جسٹس دیپ گپتا کی بنچ نے سرکاروں کو فٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ آپ نوابوں کے محلوں میں بیٹھ کر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں آپ کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہے کہ لوگ مر رہے ہیں ۔اور آلودگی سے نمٹنے کے لے سرکاریں پوری طرح سے ذمہ دار ہیں ۔دہلی ،اترپردیش ،ہریانہ ،اور پنجاب کے چیف سیکریٹروں کی موجودگی میں بنچ نے سرکاروں سے سوال کیا کہ آپ آلودگی سے لوگوں کو یہوں کی مرنے کے لے چھوڑ سکتے ہیں ؟کیا دیش کو سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں؟جمہوری سرکار سے ہر کوئی اور زیادہ امید کرتا ہے کہ وہ آلودگی پر لگام کسنے کی کوشش کرئے گی ۔پرالی جلانے کے اشو سے نمٹے گی ۔آپ کو شرمندگی نہیں ہوتی ہے کہ اڑانوں تک کے راستے بدلے جا رہے ہیں لوگ گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔تصور نہیں کر سکتے کہ آلودگی کے چلتے لوگ کن کن بیماریوں سے لڑ رہے ہیں ؟عدالت نے کہا کہ جس نے بھی قاعدہ قانون توڑے اسے بخشا نہیں جائے گا ،ماحولیات آلودگی (روک تھام )و کنٹرول اتھارٹی(این جی ٹی)کی عرضی پر بھی طنز کسا اور کہا کہ بہتر بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے لئے ورلڈ بینک سے آنے والے فنڈ پر سوال اُٹھایا کہ اسمارٹ سٹی کہاں ہے،سڑکیں کیوں نہیں سدھاری جا رہی ہیں؟سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ ہرسال پرالی جلائی جاتی ہے سرکاریں پہلے سے اس کو روکنے کے لئے تیاری کیوں نہیں رکھتی ،کسانوں کومشینیں کیوں نہیں دی جاتیں؟پتہ چلتا ہے کہ پورے سال آلودگی روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا آخر کار سرکاری مشینری پرالی جلانے پر روک کیوں نہیں لگا سکتی؟ریاستی حکومتیں کسانوں سے پرالی کیوں نہیں خریدتیں؟آخر کار سپریم کورٹ کو آلودگی کے خلاف خود نوٹس لینا پڑا سیاسی حکمرانی کا اصول تو یہ کہتا ہے کہ جمہوریت میں حکومتیں عوامی مفاد کے تیں حکومتی سرگرمی سے زیادہ ہوتی ہے ۔لیکن بھارت میں سرکاروں کی ترجیح کچھ الگ دکھائی دیتی ہے ۔قانون کے مطابق اگر کوئی کسی کا قتل کرئے تو اسے پھانسی یا عمر قید کی سزا ملتی ہے ،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور شکاگو یونیورسٹی کے مطابق بھارت میں آلودگی پچھلے بیس برسوں میں 69فیصد بڑھی ہے ۔جس سے کروڑوں لوگوں کی عمر دس سال کم ہوئی ہے ہر سال ایک لاکھ بچوں کی موت ہوتی ہے لیکن سرکاریں کبھی بھی اتنے بڑے امواتی سانحات سے فکر مند نہیں ہوئیں اگر ہر سال دیش کی راجدھانی گیس چیمبر بن جاتی ہے اور دھیرے دھیرے دبے پاﺅں آلودگی لاکھوں کی زندگیاں ختم کر جاتی ہیں تو اس کی ذمہ داری اس کے سر پر ڈالی جائے یہاں تو ایک ریاستی سرکار کی اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے ہر سال پڑوسی ریاست کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنا پڑلہ جھاڑ لیتی ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟