اب موڈیز نے بھارت کی ریٹنگ نگیٹیو دکھائی

بین الا اقوامی کریڈیٹ ریٹینگ ایجنسی موڈیز نے بھارت کو جو آئینہ دکھایا ہے وہ دیش کی معیشت پر زبردست چوٹ ہے اور جو بات ہم کہتے رہے ہیں دیش کی معیشت کی حالت بہت نازک ہے اس بات کی تصدیق کرتی ہے اقتصادی مندی کو لے کر بڑھتی تشویشات اور قرض کی بنیاد کو دیکھتے ہوئے موڈیز نے بھارت کی ریٹنگ اسٹیبل سے گھٹا کر منفی کر دی ہے ،موڈیز کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے بھارت کی گروتھ رفتار مزید گرنے کا امکا ن ہے ،کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی اور جی ڈی پی گروتھ کی دھیمی رفتار کو دیکھتے ہوئے موڈیز کا اندازہ ہے کہ مارچ 2020میں ختم ہوئے مالی سال کے دوران بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.7فیصد رہ سکتا ہے جس کا نشانہ 3.3فیصد تھا اکتوبر مسلسل بھارت کی ریٹنگ گراتا چلا آرہا ہے۔اکتوبر 2019میں موڈیز نے جی ڈی پی گروتھ کا اندازے کو گھٹا کر 5.8فیصد کر دیا تھا پہلے اس نے 6.2فیصد کا اندازہ ظاہر کیا تھا اس کا مطلب صاف ہے کہ اس کی نیگیٹو ریٹنگ کے مطابق ہندوستان کی معیشت کی حالت تسلی بخش نہیں ہے اور معیشت کو لے کر طویل عرصے سے جو اندیشات بڑھ رہے تھے اور وقتا فوقتا ملک و بیرون ملک کے ماہرین اقتصادیات اور بین الا اقوامی مالی ادارے جس طرح سے آگاہ کر تے رہے ہیں موڈیز کی ریٹنگ ایک طرح سے اس پر مہر ہے ۔اس نے اقتصادی حالت کی کمزوری کی جو بڑی وجوہات پیش کی ہیں ان میں اقتصادی مندی بڑھتی بے روزگاری کئی خاندانوں پر اقتصادی دباﺅ غیر بینکنگ مال کمپنیوں میں بڑھتا نقدی بحران وغیرہ شامل ہیں موڈیز نے سب سے زیادہ تشویش اس بات کو لے کر جتائی ہے کہ اقتصادی مندی سے نمٹنے کے لئے سرکار نے پچھلے کچھ مہینوں میں جو قدم اُٹھائے ہیں وہ کارگر ثابت ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں ۔اس سے آنے والے دنوں میں بھارت کے اقتصادی پس منظر کو لے کر جو تصویر ابھرتی ہے وہ بڑے خطرے کی طرف اشارہ ہے اس سے اقتصادی ترقی کے نچلے معیار پر بنے رہنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ہندوستانی معیشت میں مندی کے اثرات سال بھر پہلے ہی نظر آنے لگے تھے لیکن حکومت نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے جب اس مالی سال کی پہلی سہہ ماہی (اپریل جون)کے لئے جی ڈی پی کے اعداد و شمار آئے تو پتہ چلا کہ جی ڈی پی اضافہ گھٹ کر 6سال میں کم از کم سطح پر پہنچ گیا کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے یہ ساکھ طے کرتے وقت سب سے پہلے ریٹنگ ایجنسیاں اصلاحات کے لئے اُٹھائے گئے قدموں اور دیش میں موجودہ اقتصادی حالات پر سب سے زیادہ غورکرتی ہیں حالانکہ بھارت سرکار ابھی سے اسے عارضی مان کر چل رہی ہے لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ یہ دور جلد ختم ہونے والا نہیں ہے دیش میں سرمایہ اور کھپت اور بچت کا جو توازن بگڑ گیا ہے اس سے نمٹنے کے قدم سرکار کو دکھائی نہیں دے رہے ہیں جب دیش ودیش میں بھارت کی اقتصادی ساکھ خراب ہوگی تو سرمایہ لگانے والا آئے گا کون؟کام دھندے تبھی چلیں گے اور روزگار تبھی ملے گا جب ملک میں سرمایہ کاری ہوگی اور وہ ہو نہیں رہی ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!