آئینی جمہوریت میں کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں !

سپریم کورٹ نے خو دکے بارے میں تاریخی وقار قائم کیا ہے،قانون سے اوپر کوئی نہیں ہے ۔یہ تبصرہ عدالت نے ایک ایسے معاملے پر فیصلہ دیتے ہوئے کیا جس میںاس کے چیف جسٹس کا دفتر کو بھی آر ٹی آئی یعنی اختلاط حق قانون (آر ٹی آئی)کے دائرے میں لانے کی مانگ کی گئی تھی ۔چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کی پانچ نفری ججوں کی آئینی بنچ نے بدھوار کو فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت سی جی او کا دفتر پبلک اتھارٹی ہے ،اس نے یہ بھی آگاہ کیا کہ اس کو نگرانی کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا جب بھی صاف گوئی کی بات ہوگی اس وقت عدلیہ آزادی کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا بنچ نے یہ بھی کہا کہ آئینی جمہوریت میں کوئی بھی قانون سے اوپر نہیں ہے ۔اور جج بھی اس سے الگ نہیں ہیں۔سی جی آئی دفتر کو یہ بتانا ہوگا کہ کالیجیم کے ذریعہ ججوں کی تقرری کے لئے کن ناموں پر غور کیا گیا ۔اور اس کے پیچھے کیا بنیاد تھی ؟اس کا خلاصہ نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ عام انتظام ہے ،کہ آئین اور قانون کی کسوٹی پر دیش کے سبھی شہری اور پورے سسٹم کو چلانے والا ہر ایک شخص برابر ہے ۔بھلے ہی وہ کتنے ہی اونچے عہدے پر یا اہم ترین شخصیت کیوں نہ ہو ،مگر یہ بھی سچ ہے کہ کچھ معاملوں میں محض تصور اور رائج روایات کی وجہ سے کسی شخص یا عہدے کو لے کر رعایت کا نظریہ اپنایا جاتا ہے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے آفس کو آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں لایا جاے یا نہیں اسی نظریہ کی وجہ سے کئی برسوں سے شش و پنج یا غور کا موضوع بنا ہوا تھا ،لیکن بدھ کے روز سپریم کورٹ کی پانچ نفری آئینی بنچ نے یہ صاف کر دیا کہ بڑی عدالت کے چیف جسٹس کا دفتر اب آر ٹی آئی کا قانون کے دائرے میں آئے گا اس سے نہی صرف جوابدہی اور شفافیت میں اضافہ ہوگا بلکہ عدلیہ کی مختاری بھی مضبوط ہوگی یہ بھی سچ ہے کہ پچھلے برسوں کے دوران ایسے بھی سوال اُٹھے ہیں کہ کچھ معاملوں میں آر ٹی آئی کو ہتھیار کی شکل میں استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔اسی کے پیش نظر عدالت نے آگاہ کیا کہ عدلیہ کے معاملے میں آر ٹی آئی کے ذریعہ جانکاری مانگی جاتی ہے تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہوگا ۔اس کا استعمال نگرانی رکھنے کی ہتھیار کی شکل میں نہیں کیا جا سکتا ۔اور شفافیت کے معاملے پر غور کرتے وقت اور عدلیہ کی آزادی کو ذہن میں رکھنا ہوگا ،کیونکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا آفس کچھ شرطوں کے ساتھ ہی اطلاعات حق قانون کے دائرے میں آئے گا۔اس لئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس سے کیا جانکاری حاصل کی جاسکتی ہے اور کیا نہیں ؟امید تو یہی ہے کہ اس فیصلے کا اثر کالیجیم کے کام کاج میں صاف ستھر ابناے گا بلکہ جج صاحبان کی تقرری اور ترقی و تبادلے کے معاملے میں بھی کارروائی سے متعلق اطلاع دینے کے سوال کو بحث کا موضوع مانا گیا ہے یہ فیصلہ ایک ضروری پیغام دیتا ہے کوئی بھی کہیں اور بھی اور یہاں تک کہ بڑی عدالت کے جج بھی قانون سے اوپر نہیں ہو سکتے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟