آتنکیوں کے نشانے پر جموں

جموں و کشمیر کے پلوامہ حملے کے بعد دعوی کیا جا رہا تھا کہ ریاست میں سیکورٹی فورسیز چوکس ہیں سب جگہ چوکسی ہے لیکن جمعرات کے روز دوپہر میں جموں کے بس اسٹینڈ پر کھڑی بس میں ایک دستی بم پھٹا ۔حملہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست میں فی الحال دہشتگردوں کو کمتر سمجھنا بھول ہوگی بے شک ہم نے سرحد پار سے فی الحال حملے روک دئے ہوں لیکن جموں و کشمیر کے اندر پھل پھول رہے ان دہشتگردوں کا کیا کروگے ؟غور طلب ہے کہ جموں کے ایک جموں میں دھماکے میں ایک لڑکے کی موت اور 31لوگ زخمی ہو گئے تھے اس واردات کے پانچ گھنٹے کے اندر ہی پولس نے کل گاﺅں کے باشندے ایک لڑکے یاسر جاوید کو گرفتار کیا ہے پولس کا دعوی ہے کہ حزب المجاہدین نے حملہ کروایا تھا اور اس کے لئے اس نے 50ہزار روپئے دیئے تھے ۔دہشتگرد یاسر نے بیگ میں کپڑے اور کھانے کے ٹفن میں دستی بم چھپا رکھا تھا جموں کے بڑے بس اڈے پر پچھلے دس دن میں یہ تیسرا دستی بم حملہ ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ پنجاب روڈویز کی بس جموں ریلوئے اسٹیشن سے جانے کے لئے نکلی تب صبح بس اسٹینڈ سے بی سی روڈ کی طرف پہنچی تو اچانک زوردار دھماکہ ہو گیا دھماکے کی آواز سے بسوں کے شیشے ٹوٹ گئے ۔وہیں جمعہ کو جموں ائیر پورٹ کے انٹری گیٹ کے نزدیک ایک بم نما پیکٹ ملا جس سے کھلبلی مچ گئی اور بم اسکوائڈ نے ہوشیار ی کے ساتھ روبوٹ کی مدد سے پیکٹ کو خالی جنگل میں لے جا کر اسے ناکار ہ کر دیا ۔سیکورٹی ایجنسیاں اس بات سے انکار نہیں کر رہی ہیں کہ اس کی مدد سے آتنکی جموں سے ہوائی جہاز کو اغوا کرنے کی فراق میں تھے ۔دراصل پلوامہ میں حملے کے بعد بھارت نے پاک کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کیا تھا تب سے ہی پاکستان کی طرف سے کسی کارروائی کا اندیشہ بنا ہوا تھا لیکن بھارت کے رخ کو دیکھتے ہوئے شاید پھر سے دہشتگردوں کے ذریعہ در پردہ طور سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ان کو یہ اندازہ ہے کہ ایسے چھوٹے موٹے حملے بھی شہریوں میں خوف کا ماحول بنائے رکھ سکتے ہیں لیکن یہ دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ انڈین ائیرفورس اور پیرا ملٹری فورس کے بڑے حملوں سے فی الحال راحت ضرور پائی ہے لیکن دہشتگردوں کا خطرہ برقرار ہے لگتا بھی ہے کہ اب پاک اور اس کے ہمائیتی آتنکی گروپ جموں کو نشانہ بنانے سے کترائیں گے نہیں اس لئے اسپیشل سیکورٹی اور پختہ جانکاری ضروری ہو گئی ہے ۔لیکن اگر دہشتگردوں اور ان کے ہمایتوں کی ہمایت کرنے والے علیحدگی پسندوں کو یہ سمجھنا ضروری نہیں لگتا ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے کیسے حالات پیدا ہوں گے تو ہماری سیکورٹی فورسیز کے سامنے ان دہشتگردوں کا سامنا کرنے یا انہیں مناسب جواب دینے کے لئے کیا راستہ بچے گا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟