ان علاقائی پارٹیوں سے نمٹنا ہوگا مودی-راہل کو...لوک پروو2019 ...(4)
اترپردیش کی 80لوک سبھا سیٹیں دہلی دربار کے لئے جانے کا راستہ مانی جاتی ہیں تو یہاں اس لئے سیٹیں ہی مرکز میں حکومت بنانے کی بنیاد تیار کرتی ہیں ۔عام طور پر دہلی کی گدی نشیں طے کرنے والے اس صوبے میں خاص کر بھاجپا کی ساخ داﺅں پر ہوگی ۔سپا بسپا،اتحاد کے لئے بھی یہ چناﺅ کسی سخت امتحان سے کم نہیں ہوگا ۔سال2014میں بھاجپا نے71سیٹیں اور اس کی اتحادی پارٹی نے 02سیٹیں جیتی تھیں خود امت شاہ نے اس مرتبہ پھر 73سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعوی کیا ہے ۔ہمیں نہیں لگتا کہ بھاجپا2014کو یوپی میں دہرا سکے گی ایسے میں بھاجپا کی ساخ سب سے زیادہ داﺅں پر لگی ہے کبھی کٹر حریف رہے سپا اور بسپا نے تمام گلے شکوئے بھلا کر اس چناﺅ میں بھاجپا کو ہرانے کے لئے ہاتھ ملایا ہے ۔26سال بعد یہاں سپا بسپا نے اتحاد کر کے چناﺅ کو دلچسپ بنا دیا ہے ۔تو بھاجپا اپنے نیٹورک کے سہارے پچھلی تاریخی پرفارمینس کو دہرانے کی کوشش میں ہے ۔پرینکا گاندھی واڈرا کی آمد کے بعد کانگریس نئے حوصلے کے ساتھ چناﺅ ی رتھ پر سوا ر ہے اس طرح لگتا ہے کہ اترپردیش میں چناﺅ میں تکونہ مقابلہ ہوگا۔ہاں اگر سپا بسپا اور کانگریس کا اتحاد ہو جاتا ہے تو مقابلہ بھاجپا بنام گٹھ بندھن ہو جائے گا اگر 2014کے چناﺅ پر نظر ڈالیں تو بھاجپا نے ج71سیٹیں جیتیں تھیں اور اس کا ووٹ فیصد 42.63تھا ۔ اور اس کا ووٹ فیصد 42.63تھا ۔اپنا دل نے 2سیٹیں جیت کر 0.02فیصد ووٹ پایا تھا ۔سپا کو 5سیٹیں ملیں اور اس کو 22.35فیصد ووٹ ملے تھے ۔بسپا کو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی ۔تب بھی اسے 19.77فیصد ووٹ ملا تھا کانگریس دو سیٹیں جیت کر 07.55فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی ۔راشٹریہ لوک دل کو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی اور اسے 00.86فیصد ووٹ ملے تھے اس طرح سپا بسپا ،راشٹریہ لوک دل اور کانگریس کا ووٹ مل کر 49.67فیصد بنتا ہے جو کہ بھاجپا کے 42.65فیصد سے زیادہ ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ اپوزیشن اتحاد کتنا مضبوطی سے ووٹ ڈلواتا ہے ؟بہار کی کل 40سیٹیوں کے لئے جو سیاسی پس منظر بن کر تیار ہو رہا ہے اس سے صاف ہے یہاں بھاجپا ،جے ڈی یو ،اور ایل جے پی کی قیادت والے این ڈی اے اور آر جے ڈی کانگریس راشٹریہ لوک سمتا پارٹی اور ہم ،وی آئی پی کی قیادت والے مہا گٹھ بندھن کے درمیان مہا سنگرام ہوگا ۔این ڈی اے کے حق میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس کا چناﺅ ی گٹھ جوڑ نہ صرف وقت سے ہو گیا ہے جس وجہ سے ان پارٹیوں میں سیٹیوں کے بٹوارے کو لے کر کسی طرح کی کچ کچ نہیں ہوئی بھاجپا اور جے ڈی یو کو 17-17ایل جے پی کو 6سیٹیں دینے کا فارمولہ طے ہو ا ہے ۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھاجپا کو پچھلی بار اپنی کئی جیتی ہوئی سیٹیں چھوڑنی پڑ رہی ہیں اس سب سے باوجود این ڈی اے کی راہ کو ایک دم آسان نہیں مانا جا سکتا سیٹیوں کا بٹوارہ بے شک ہو گیا ہو لیکن کئی علاقائی پارٹیاں ایسی ہیں جہاں گٹھ بندھن کی ایکتا سے زیادہ ذات بات کا فیکٹر حاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے اگرچہ اپوزیشن مہاگٹھ بندھن کی بات کریں وہاں ابھی سب کچھ طے نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔سیٹیوں کا فارمولہ کیا ہوگا این ڈی اے و دیگر اتحادی پارٹیوں خاص کر کانگریس کس حد تک مانے گی یہ ابھی طے نہیں ہو پایا ہے پردیش کی 40سیٹیوں میں بھاجپا کو 2014میں 22سیٹیں ملی تھیں اور ووٹ فیصد 29.86تھا ۔آر جے ڈی کو 4سیٹیں اور ووٹ 20.46فیصد جے ڈی یو کو 2سیٹیں ووٹ16.4فیصدکانگریس کو دو سیٹیں ووٹ8.56فیصد ایل جے پی کو چھ سیٹیں اور ووٹ6.50فیصد ووٹ ملے تھے ۔این سی پی کو تین فیصد ووٹ ملے تھے اور سیٹیں تین تھیں بہرحال اس لحاظ سے سیٹوں کے حساب سے تیسرے نمبر پر سب سے بڑے صوبے مغربی بنگال میں 2019کا چناﺅ ی مہا سنگرام بہت دلچسپ ہونے والا ہے 42سیٹوں والی اس ریاست میں ترنمول کانگریس نے اپنے سبھی 42امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے وہیں بھاجپا بھی دوسری پارٹیوں کے بڑے نیتاﺅں کو توڑ کر اپنی پوزیشن مسلسل مضبوط کر رہی ہے 2014کے لوک سبھا چناﺅ میں ترنمول کانگریس نے 34سیٹیں جیتیں تھیں جبکہ کانگریس چار پر کمینسٹ پارٹی دو بھاجپا دو سیٹوں پر کامیاب رہی تھی ترنمول کانگریس بھاجپا کے درمیان ریاست کا مقابلہ چکور سطحی نہ ہو اس لئے کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں میں اتحاد کی بات بھی چل رہی ہے حالانکہ ان دونوں پارٹیاں اس پر کھلے طور سے کوئی نہیں بول رہی ہیں ۔فی الحال سیدھی لڑائی مودی لہر میں بھی چونتیس سیٹیں جیتنے والی دی دی اور ائیراسٹرائیک اور راشٹر واد کی تیز آندھی لانے والی بھاجپا کے درمیان دکھائی دے رہی ہے اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کا چہرہ بننے کی کوشش کر رہی ٹی ایم سی صدر اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی زیادہ سے زیادہ چالیس سیٹیں جیت کر وزیر اعظم بننے کے لئے مضبوط دعویے داری کی کوشش میں ہیں دوسری طرف بھاجپا شمالی ہندوستانی ریاستوں میں ہونے والے نقصان کی بھرپائی کے لئے بنگا ل پر نگاہ لگائے ہوئے ہے ۔لوک سبھا ،ودھان سبھا چناﺅ میں ملے ووٹ کے حساب سے ترنمول کانگریس اور بھاجپا کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے اس کے باوجود بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کا کہنا ہے کہ لیفٹ پارٹیاں اور کانگریس کو تیسرے چوتھے نمبر پر دھکیلنے کے بعد پارٹی ترپورہ کے طرز پر یہاں بھی چمتکار دکھا سکتی ہے پارٹی صدر امت شاہ نے بنگال میں کم سے کم 23سیٹیں جیتنے کا نشانہ طے کیا ہوا ہے ۔آنے والے لوک سبھا چناﺅ میں جہاں دو سو سے زیادہ سیٹوں پر علاقائی چھوٹی پارٹیاں بھاجپا اور کانگریس کو ٹکر دیں گی وہیں چناﺅ بعد بھی یہی سرکردہ لیڈر دیش کی اگلی سرکار کے قیام میں اہم ترین رول نبھا سکتے ہیں دیش کی کل لوک سبھا کی 543سیٹیوں میں سے اترپردیش ،مغربی بنگال ،کیرل،آندھرا پردیش ،تلنگانہ ،اڑیسہ،جموں وکشمیر ،اور دہلی پر مشتمل 218لوک سبھا سیٹوں پر بھاجپا اور کانگریس میں سیدھی لڑائی ان علاقائی چھوٹی پارٹیوں سے ہونی ہے ان ریاستوں میں یہ پارٹیاں نریندر مودی اور راہل گاندھی دونوں کے خلاف خم ٹھوکنے کو تیار ہیں اترپردیش میں مایا وتی اکھلیش ،آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو ،وائی ایس آر کے جگن موہن ریڈی دہلی میں اروند کجریوال ممتا بنرجی مودی کو سیدھی چنوتی دینا چاہیں گے مغربی بنگال آندھرا پردیش اڑیشہ کیرل تلنگانہ ،پنجاب،دہلی ،اور جموں کشمیر میں سہہ رخی مقابلہ ہونے کی امید ہے ۔ان سب ریاستوں میں 232سیٹیں ہیں جو سرکار بنانے گرانے کے تجزئے بنا رہی ہیں ۔144سیٹوں والی آٹھ ریاستوں میں بھاجپا کانگریس ،مدھیہ پردیش راجستھان،آسام،چھتیس گڑھ سے بھاجپا کو کڑی چنوتی ملئے گی مودی سرکار کے تئیں غصے میں مودی کے متابادل کئی نیتا سامنے آئے ہیں اگر سیدھی لڑائی ہوتی ہے تو بھاجپا کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں اس لئے ان چھوٹی موٹی علاقائی پارٹیوں کے اپنی نجی توقعات کہیں اس لڑائی پر حاوی نہ ہو جائیں ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں