لوک پروو2019:اب جنتا کی باری ہے.. 2

لوک سبھا چناﺅ کی تاریخوں کی اعلان کے ساتھ ہی تمام پارٹیاں اپنی اپنی جیت کا بے شک دعوی کر رہی ہوں لیکن ایک سروے کے مطابق پچھلے چناﺅ میں مکمل اکثریت حاصل کرنے والی این ڈی اے اس مرتبہ اکثریت سے کچھ پیچھے رہ سکتی ہے ۔کانگریس کی رہنمائی والی یو پی اے کو بہتر پرفارمینس کرنے کے باوجود اقتدار تک پہنچنا مشکل دکھائی دے رہا ہے جبکہ علاقائی پارٹیاں کافی تعداد میں سیٹ جیت سکتی ہیں جس سے اگلی حکومت کی تشکیل میں ان کا رول اہم ہوگا یہ سروے اے بی پی نیوز سی ووٹر نے کیا ہے ۔اس کے مطابق543لوک سبھا سیٹ کے لئے ہونے والے چناﺅ میں بھاجپا کی قیادت والے این ڈی اے کو 264سیٹیں ملتی نظر آرہی ہیں جبکہ یو پی اے 141سیٹ پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے دیگر پارٹیوں کو 138سیٹیں ملنے کا امکان ہے کیونکہ یہ سروے چناﺅ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جیسے جیسے چناﺅ کی کارروائی آگے بڑھے گی بنیادی صورت حال بدلے گی اس لئے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے سبھی سیاسی پارٹیاں بے لہر چناﺅ میں اپنے دل کے مطابق نتیجے پانے کی حسرت سے سیاسی گوٹیاں بچھانے میں لگی ہیں لیکن میرے حساب سے اس مہا دنگل میں جو فیکٹر اہم ہوگا وہ کچھ اس طرح ہے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بی جے پی کو جن اشوز کا جواب جنتا کو دینا ہوگا۔ان میں نوٹ بندی ،جی ایس ٹی ،بے روزگاری،سماجی اور آر بی آئی آئینی بحران وغیرہ شامل ہیں نوٹ بندی:یہ سب سے چونکانے والا فیصلہ تھا سرکار نے پانچ سو اور ہزار روپئے کے نوٹوں پر راتوں رات پابندی لگا دی گئی عوام کو اپنا پیسہ بدلوانے کے لئے لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا ہونا پڑا سو سے زیادہ لوگوں کی تو بینکوں کی لائن میں لگتے لگتے ہی موت ہو گئی ۔بلیک منی جس کے لئے نوٹ بندی نافذ ہوئی تھی وہ آج سے پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اس طرح دہشتگردی پر لگام لگے گا لیکن بنیادی حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں جتنے آتنکی حملے ہوئے ہیں اور جوان مرے ہیں وہ پچھلے برسوں کے مقابلے زیادہ ہیں نوٹ بندی جی ایس ٹی کے سبب ہزاروں کارخانے بند ہوگئے لاکھوں کنبے تباہ ہو گئے ۔مودی نے ہر سال میں دو کروڑنوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کانگریس کا الزام ہے کہ پچھلے سال ایک کروڑ لوگوں نے اپنی نوکریاں گنوا دی ہیں ۔این ایس ایس او کی رپورٹ کے مطابق 2017-18میں 6.1فیصد تھی جبکہ 1972-73کے بعد یہ سب سے زیادہ ہے اب تو آر بی آئی نے بھی صاف کر دیا ہے کہ اس نے نوٹ بندی نہ کرنے کی صلاح دی تھی لیکن وزیر اعظم نے ان کی صلاح کو بھی در کنار کر دیا ہے موب لنچنگ ،گائے کا اشو بھی اچھلے گا ۔کانگریس کے مطابق اس وقت آئینی بحران کھڑا ہو گیا ہے ۔پہلی بار جب سپریم کورٹ کے جج تنازعوں کو لے کر میڈیا کے سامنے آئے تو انہوںنے جمہوریت کو خطرہ بتایا اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشر اکے طور طریقوں پر سوال اُٹھائے گئے آر بی آئی کے اندرونی رشہ کشی کھل کر اس وقت سامنے آئی جب آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل نے عہدہ چھوڑا ،آلوک ورما کو سی بی آئی کے عہدے سے ہٹانے پر بھاری تنازع کھڑا ہو ا بھارت کے عام چناﺅ کو لے کر پہلے سے کوئی پیش گوئی آج تک اس لئے صحیح ثابت نہیں ہو سکی کیونکہ یہ الگ الگ مجاز کے ریاستوں کا ملک ہے ان کی سیاسی پسند نہ پسند ان کے کھانے پینے رہن سہن بول چال بھروسہ اور عقیدت سے جڑا ہوتا ہے یہ وہی فیکٹر ہے جن کے چلتے ووٹوں کے نتیجے آنے تک پختگی کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس کی سرکار بننے والی ہے ؟ووٹروں کو کسی آخری نتیجے پر پہنچنے کے بجائے 2014اور2019کے فرق کو سمجھنا چاہیے ۔شاید اس لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ 2014کا چناﺅ مسلسل دس سال تک حکمراں یو پی اے سرکار کے خلاف تھا کئی بڑے گھوٹالے اجاگر ہو چکے تھے جن میں کچھ وزراءکو جیل تک جانا پڑا تھا اور کچھ کو استعفی دینا پڑا تھا اس کے چلتے عوام انہیں اقتدار سے باہر کرنے کا من بنا چکی تھی اور اس نے کیا بھی 2014کا چناﺅ اس ماحول میں مودی لہر چل گئی اور وہ ایک جھونکے کی طرح سامنے آئے تھے وہ چناﺅ بی جے پی نہیں لڑ رہی تھی وہ مودی لڑ رہے تھے ۔2019میں کانگریس کو ئی فیکٹر نہیں ہوگا چناﺅ ہمیشہ سرکار کے خلاف لڑا جاتا ہے ظاہر سی بات ہے ووٹروں کی کسوٹی پر پارٹی لیڈر کی شخصی ساکھ ہوگی این ڈی اے سرکار کے پانچ سال کا اشو بھی ہوگا 2014میں بی جے پی یا مودی کے پاس نہ تو کچھ کھونے کے لئے تھا اور نہ ہی کچھ ثابت کرنے کے لئے تھا لیکن اس بار کھونے کا ڈر بھی ہوگا اور اپنے آپ کو ثابت کرنے کی چنوتی بھی ہوگی مودی کے لئے یہ بھی ثابت کرنا ایک بڑ ا چلینج ہوگا کہ اچھے دن کا جووعدہ کیا تھا وہ کب آ ¾یں گے ؟2014کے چناﺅ میں تکونا مقابلہ تھا اپوزیشن بٹی ہوئی تھی ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا بڑا حصہ بی جے پی اور کانگریس سے ہی مقابل تھا اس بار بی جے پی کے مقابلے اپوزیشن متحد ہو کر براہے راست ٹکر دینے کی کوشش میں دکھائی پڑ رہی ہے اگر آمنے سامنے چناﺅ کرانے کے اپوزیشن کی کوشش کامیاب ہوتی ہے تو مودی اور بی جے پی کے لئے تلخ مقابلہ ہو جائے گا چناﺅ سے پہلے پلوامہ کانڈ اور اس کے بعد پاکستان کے خلاف ائیر اسٹرائک سے ماحول راشٹر واد کی ہوا محسوس کی جا رہی ہے یہ ایسا اشو ہے جس کے آگے تمام اشو بونے ہو جاتے ہیں ۔2014میں کرپشن کا اشو سب سے اہم تھا بی جے پی کی پوری کوشش ہوگی کہ راشٹر واد کے اشو کو حاوی ہونے دیا جائے اور اپوزیشن اس کے اثر کو سمجھتے ہوئے اسے حاوی ہونے سے روکنے کی کوشش میں ہے 2014میں مودی کے خلاف لے دے کر راہل گاندھی کا چہر ہ تھا جسے رسمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا ۔علاقائی پارٹیوں سے کوئی گٹھ بندھن نہیں ہوا تھا اس لئے اس خیمے میں وزیر اعظم کی امیدوار کی شکل میں کوئی نام آنے کا سوال نہیں تھا لیکن اس بار تو ممتا بنرجی سے لے کر مایا وتی تک کے نام اپوزیشن کے پی ایم امیدوار کی شکل میں زیر بحث ہیں پھر راہل اب پوری طرح سے بطور کانگریس صدر سرگرم ہو چکے ہیں انہوںنے حال ہی میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناﺅ میں یہ ثابت بھی کر دیا ہے کہ اب نہ تو انہیں اور نہ ہی کانگریس کو حلقے میں لیا جا سکتا ہے ۔(جاری)

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟