لوک پروو2019:اب جنتا کی باری ہے.. 1

عام چناﺅ کا بیگل بج گیا ہے چناﺅ کمیشن نے لوک سبھا اور چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے لئے تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے لوک سبھا کی 543سیٹوں کے لئے گیارہ اپریل سے 19مئی تک سات مرحلوں میں ووٹ پڑیں گے نتیجے 23مئی کو آئیں گے تین جون تک نئے لوک سبھا تشکیل ہو جائے گی چناﺅ کمیشن نے اس مرتبہ سو فیصدی وی وی پیٹ کے استعمال کا اعلان کر ان سبھی لوگوں کا منھ بند کرنے کی کوشش کی ہے جو ای وی ایم پر سوال کھڑا کرتے ہیں ۔کل 90کروڑ ووٹر یہ کسی دیش میں ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے پہلی بار 21ویں صدی میں پیدا ہوئے اٹھارہ سے 19سال کے 1.6کروڑ ووٹر سرکار چنیں گے ۔دیش کی اگلی حکومت و لوک سبھا چناﺅ کا بگل بجنے سے اہم مقابلہ وزیر اعظم نریندر مودی اور مودی مخالف نام پر در پردہ طور سے متحد ہوئی اپوزیشن ہوگی ترقی میں راشٹر واد کا چھونک لگا کر میدان میں اتری بھاجپا پورے چناﺅ کو موجودہ سیاست میں سب سے بڑے قد والے لیڈر نریندر مودی پر مرکوز کرنا چاہتی ہے ۔بھاجپا کا ترپ کا پتہ ہے نریندر مودی کی بے داغ ساکھ اور سال 2014میں جب لوک سبھا کا چناﺅ ہوا تھا تب نریندر مودی کی لہر تھی آج وہ لہر گھٹی ہے بے شک فی الحال اپوزیشن بٹی ہوئی لگتی ہے اگر اپوزیشن مہا گٹھ بندھن صحیح معنوں میں ٹھیک طرح سے بن جاتا ہے تو بھاجپا کو سخت چنوتی کی شکل میں پیش کر سکتا ہے۔2014میں لوک سبھا چناﺅ ہوئے تھے تو یو پی اے کو اقتدار میں دس سال ہو چکے تھے کرپشن اور دیگر اسباب کے چلتے اقتدار مخالف لہر چل پڑی تھی بھاجپا کو یو پی کے تئیں ناراضگی کی وجہ سے اقتدار سے باہر ہونے کی ہمدردی کا فائدہ ملا ۔اس نے قومی سطح پر ابھر رہی مودی کی ساکھ کو پورے دیش میں بھنایا اور تیس سال کے بعد کوئی پارٹی یعنی بھاجپا واضح اکثریت سے سرکار بنانے میں کامیاب رہی لیکن اب سیاسی حالات کافی بدل چکے ہیں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گجرات ،دہلی،ہماچل پردیش،اترپردیش، اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں ساری سیٹیں اس کے لئے جیتنا بھی آسان نہیں ہے گذشتہ پانچ سال میں بدلے سیاسی حالات نے 2014اور 2019کے عام چناﺅ میں بڑا فرق پیدا کر دیا ہے ۔چناﺅ میں ایک طرف بلا تنازعہ اور سب سے بڑا چہرہ مانے جانے والے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں دوسری طرف پانچ سال سے وجود کے لئے لڑتی کانگریس کی بانگ ڈور سنبھال کر حکمراں بھاجپا سے اچانک تین ریاستیں چھین کر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے والے راہل گاندھی ہیں پہلی بار کھیتی کسانی،ودیہی ہندوستان اور بڑی برادریوں کے مفاد چناﺅی اشو کے مرکز میں ہیں تو دوسری طرف رام مندر کے نام پر بالا کوٹ کے نام سے پیدا قومیت رہے گا ۔بے روزگاری نوٹ بندی،جی ایس ٹی،رافیل جیسے اشو اپوزیشن کا بڑے ہتھیار ہوں گے ۔پچھلے چناﺅ میں کانگریس کے اقتدار کی گاڑی سے اتارنے والے مودی تھے تو اس بار ان کے مقابلے میں راہل گاندھی ہیں نرم ہندتو اپنانے کے ساتھ عین چناﺅ کے وقت بہن پرینکا گاندھی واڈرا کو سیاست میں اتار کر مقابلہ کو بے حد دلچسپ بنا دیا ہے چار سال پہلے کی سرکار اور اپوزیشن کی سیاست دیکھیں تو منموہن سنگھ کے مقابلے موجودہ مودی سرکار زیادہ چوکس و مضبوط ہے مودی سرکار نے پورے پانچ سال رہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔جبکہ کانگریس اپوزیشن خیموں میں پانچویں سال دھار آئی ہے ۔(جاری)

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟