کیا راہل کی رافیل رٹ سے مقامی اشو دب رہے ہیں

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں دو مرحلوں میں ہونے جا رہے اسمبلی حلقوں سے پہلے مرحلہ کے لئے منگلوار کو نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی کاغذات کی نامزدگی شروع ہوگئی ہے۔ پہلے مرحلہ میں 8 اضلاع میں 18 اسمبلی سیٹوں کے لئے چناؤ ہوں گے۔ دسمبر میں ووٹوں کی گنتی کے ساتھ چناوی خانہ پوری پوری ہوجائے گی۔ یہ اسمبلی چناؤ لوک سبھا چناؤ سے پہلے کے سیمی فائنل مانے جارہے ہیں۔ ان کے نتائج سے لوک سبھا چناؤ 2019 پر سیدھا اثر پڑے گا۔ ان ریاستوں میں کل 680 اسمبلی سیٹیں ہیں۔ ان ریاستوں میں 83 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 2004 میں بھاجپا کو 63، کانگریس کو6 اور ٹی آر سی نے 11 سیٹیں جیتی تھیں۔ ظاہر ہے بھاجپا کو 2019 کے نمبروں کے حساب کتاب تک پہنچنے کے لئے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ،راجستھان انتخابات میں 2013 کو دوہرانا ہوگا۔ تلنگانہ اور میوزرم میں اپنی پرفارمینس بہتر کرنی ہوگی۔ اگر کانگریس 2019 میں بہتر پرفارمینس کرنا چاہتی ہے تو کم سے کم ان تین ریاستوں میں اسے واپسی کرنی ہوگی۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ سے پہلے بھلے ہی کانگریس رافیل سودے کو اشو بنانے کی کوشش کررہی ہو لیکن لگتا ہے بھاجپا اسے زیادہ توجہ نہیں دے رہی ہے۔ بھاجپا ان ریاستوں میں کانگریس کی پچھلی موجودہ حکومتوں کے کام کاج کا جائزہ عوام کے سامنے رکھ رہی ہے تاکہ جنتا جان سکے کہ کون بہتر ہے۔ وہ مختلف اشوز پر کانگریس کے ساتھ زیادہ الجھنے کے بجائے سماجی تجزیوں پر زیادہ غور کررہی ہے خاص کر پسماندہ طبقات پر جس سے خود وزیر اعظم مودی آتے ہیں۔ بھاجپا کے اپنے تجزیئے میں سب سے راحت کی بات یہ سامنے آرہی ہے کہ رافیل کہیں بھی چناؤ اشو بنتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کم سے کم بھاجپا کا تو یہ ہی ماننا ہے۔کل ملا کر سیاسی مبصروں کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کے ذریعے رافیل کی لگاتار رٹ لگانے سے عام آدمی کو متاثر کرنے والے اشو مہنگائی اور بے روزگاری دبتے چلے جارہے ہیں۔ بھاجپا کے نیتا بھی رافیل کو بوفورس کی طرز پر استعمال کرنے کی ہوا ختم ہوتے ہوئے راحت محسوس کررہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں رافیل کی پھونک نکلتی دیکھ بھاجپا اعلی کمان نے اس پر توجہ دینا اب ضروری نہیں سمجھا ہے۔ بھاجپا کو اندیشہ ہے کہ بھاجپا حکمراں ریاستوں میں اپوزیشن مخالف ماحول کے چلتے مقامی اشوز کے ذریعے حملہ آور ہوں گے اوربھاجپا کی پوزیشن بچاؤ کی بنی رہے گی لیکن مرکزی نیتاؤں کے ذریعے رافیل کو زیادہ توجہ دینے پر حکمراں مخالف حملے کے دباؤ میں بھاجپا کو کم پسینہ بہانا پڑے گا۔ بھاجپا کے اپنے تجزیئے میں سب سے بڑی راحت کی بات یہ سامنے آرہی ہے رافیل کو لیکر کانگریس کا شور کسی بھی ریاست کے چناؤ میں اشو نہیں ہے۔ وہاں پر مقامی اشو زیادہ حاوی ہے اور نتیجہ ان پر ہی آنے والا ہے۔ ایسے میں پارٹی رافیل جنگی جہاز سودے پر جنتا میں صرف ایک بات پر زور دے رہی ہے کہ کانگریس صدر جھوٹ بول رہے ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟